سلیکان ویلی:
مائیکروسافٹ اور میٹا (سابقہ فیس بُک) نے اب تک مستقبل کے ’ورچوئل رئیلیٹی سوشل میڈیا‘ یعنی میٹاورس کی جتنی جھلکیاں بھی جاری کی ہیں، ان سب میں لوگوں (تھری ڈی اوتارز) کا صرف اوپر والا دھڑ ہوتا ہے جبکہ ٹانگیں نہیں ہوتیں۔ لیکن کیوں؟
ماہرین اس سوال کا بہت دلچسپ جواب دیتے ہیں:
جب کسی شخص کا تھری ڈی ورچوئل ماڈل یعنی ’اوتار‘ بنایا جاتا ہے تو اس کے ہاتھوں، گردن اور چہرے سمیت، جسم کے بالائی حصے کو (اصل شخص کے ساتھ ساتھ) فوری حرکت کرتا دکھانے میں کم پروسیسنگ پاور درکار ہوتی ہے۔
اس کے مقابلے میں نچلے دھڑ، بالخصوص ٹانگوں کی حرکت خاصی پیچیدہ اور تیز رفتار ہوتی ہے جسے میٹاورس کے تھری ڈی ماحول میں اتنی ہی تیزی سے دکھانے کےلیے بہت زیادہ طاقت والے گرافک پروسیسرز کی ضرورت پڑتی ہے جو فی الحال عام دستیاب نہیں، جبکہ وہ بہت مہنگے بھی ہیں۔
علاوہ ازیں، اب تک ایسے الگورتھمز بنانے پر بھی کام ہورہا ہے جو کم طاقت والے گرافکس پروسیسرز کی مدد سے اوتار کی ٹانگوں کو حقیقی وقت میں تیز رفتار اور (اصل شخص کے مطابق) فوری حرکت دے سکیں۔ ان الگورتھمز پر کام مکمل ہونے اور ان کی وسیع تر آزمائش میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔
لہذا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جب تک ہمارے پاس اور زیادہ طاقت والے کم خرچ پروسیسرز اور بہتر الگورتھمز نہیں آجاتے، تب تک میٹاورس میں رہنے والے ’لوگ‘ ٹانگوں سے محروم ہی رہیں گے۔البتہ چند سال میں یہ صورتِ حال بدلنے اور میٹاورس کےلیے ’ٹانگوں والے‘ تھری ڈی اوتارز تیار ہوجانے کی پوری امید ہے۔