کراچی:
ڈاکٹروں کے مطابق چار وٹامن اور غذائی اجزا ایسے ہیں جو نہ صرف آپ کے بدن کے بہترین دوست ہیں بلکہ امنیاتی نظام کو ہر لحاظ سے مستحکم کرتے ہیں۔
نظری طور پر ضروری ہے کہ آپ کی غذا میں ضرورتی پروٹین، وٹام، معدنیات ، چکنائیں، پھل، سبزیاں، دالیں، اور مفید قسم کا گوشت ضرور ہونا چاہیے لیکن تیزرفتار زندگی میں ہم ان سب لوازمات کو پورا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کا اصرار ہے کہ وٹامن سی اور ڈی ، جست یعنی زِنک اور دارچینی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ اب ہم باری باری ان کا جائزہ لیں گے۔
وٹامن سی
ہمارا جسم وٹامن سی نہیں بناسکتا اس لیے غذا ہی بہترین ذریعہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ وٹامن سی کی بہت تھوڑی مقدار جسم میں جمع ہوتی ہے جسے بھرنے کے لیے غذا یا سپلیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہترین اینٹی آکسیڈنٹ ہونے کی بنا پر وٹامن سی بدن کے امنیاتی نظام کو خلوی سطح تک بہتر بناتا ہے۔ اگرکوئی انفیکشن ہوجائے تو وٹامن سی کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے بھی ہمیں وٹامن سی کی ضرورت رہتی ہے۔ دوسری جانب یہ ٹھنڈ لگنے سے بچاتا ہے اور کووڈ کے حملے سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ روزانہ 500 ملی گرام وٹامن سی ضروری کھایا جائے جس کے بے انتہا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
وٹامن ڈی
دنیا بھر کی آبادی اور بالخصوص خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ وٹامن کا سپراسٹار ہے جو بیکٹیریا اور وائرس کو مارتا ہے اور ساتھ میں بدن کا دفاعی نظام درست رکھتا ہے۔
اس وٹامن کی کمی آٹوامیون مرض پیدا کرسکتی ہے اور اس کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ اسی لیے لوگ کی گولیاں اور سپلیمنٹ کھاتے ہیں۔ البتہ جلد پر بڑھنے والی دھوپ اس وٹامن سازی میں مدد کرسکتی ہے۔ موسمِ سرما میں بھی وٹامن ڈی کی کمی لازمی ہوجاتی ہے۔
وٹامن ڈی کی مقدار کوبین الاقوامی یونٹ روزانہ آئی یو ڈی کے لحاط سے ناپا جاتا ہے ۔ ایک بالغ فرد کو روزانہ 1000 سے 2000 یونٹ درکار ہوتے ہیں۔ سامن مچھلی، ٹیونا مچھلی، دودھ اور اس کی مصنوعات اور نارنجی کے رس میں اس کی غیرمعمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔
زِنک
جست (زِنک) ایک طرح کی دھات ہے لیکن دنیا کی زیادہ سے زیادہ 30 فیصد آبادی اس کی کمی کی شکار ہے۔ اس کمی سے وہ کئی مسائل میں گرفتار ہیں۔
ایک جانب تو یہ خلوی سطح پر اندرونی امنیاتی نظام مضبوط بناتا ہے۔ دوسری جانب یہ وائرس اور فری ریڈیکل خلیات کو بھی روکتا ہے۔
جست سرخ گوش، صدفوں، کیکڑوں کے علاوہ اس کی تھوڑی مقدار کدو کے بیجوں، دالوں، کاجو اور دیگر نعمتوں میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ روزانہ 15 سے 30 ملی گرام جست کھانا ضروری ہے۔ بالخصوص یہ مقدار ہمیں سردی کے حملے اور بیماری سے بچاتی ہے۔
ہلدی اور کرکیومن
امریکہ اور برطانیہ میں لوگ ہلدی کو چائے، کھانے اور سلاد پر چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پوری دنیا میں 120 کے قریب تحقیقی مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہلدی اور اس کے اجزا الزائیمر سے بچانے کا بہترین نسخہ ہے۔
ہلدی کا سب سے بہترین اثر ذیابیطس پر ہوتا ہے اس کا باقاعدہ استعمال ذیابیطس کو روکتا ہے ۔ اس کے علاوہ جسم کے اندرونی حصوں کی جلن کو بھی کم کرتی ہے۔ کیونکہ اندرونی سوزش کئی ان دیکھی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔ کئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا جزو کرکیومن کینسر کو تلف کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔
ہلدی کا استعمال ہاضمے کو بہتر بناتا ہے ۔ لیکن ہلدی کے جادوئی جزو کو ہمارا بدن جذب نہیں کرسکتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ہلدی کی جڑیں بھی استعمال کی جائیں۔