اب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں کے اس طرح اچانک جبری انخلا سے پاکستان پر کیا معاشی اثرات مرتب ہوں گے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق اس وقت پاکستان میں 37 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں ۔ مزید گفتگو سے قبل ایک غلط فہمی کی وضاحت ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اتنی بھاری تعداد میں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جو اس کی معیشت کے لیے بوجھ ہے ۔ یہ مہاجرین اس وقت تک پاکستان کی معیشت پر بوجھ تھے ، جب تک یہ کیمپوں میں رہ رہے تھے اور ان کے طعام و قیام کے اخراجات حکومت پاکستان برداشت کررہی تھی ۔ جب سے یہ خود کھا کما رہے ہیں ، یہ حکومت پاکستان پر کس طرح سے بوجھ ہیں ۔ یہ پاکستانی معیشت پر اتنے ہی بوجھ ہوسکتے ہیں جتنا ایک عام پاکستانی ۔ چونکہ حکومت پاکستان نہ تو کسی کو بے روزگاری الاونس دیتی ہے اور نہ ہی کسی غریب کو ٹیکس میں کوئی رعایت ، تو پھر کوئی بھی عام فرد کیسے معیشت پر بوجھ ہو سکتا ہے ۔ یہ عام فرد غذائی اشیاء ، ادویہ ، سگریٹ ، فون کال ، مٹی کے تیل سمیت ہر چیز پر تو ٹیکس دیتا ہے ۔ایک عام آدمی اپنی آمدنی کے لحاظ سے جتنا ٹیکس دیتا ہے ۔ وہ آمدنی کےتناسب سے خاص مراعات یافتہ طبقے سے کہیں زیادہ ہے ۔ تو معیشت پر بوجھ تو مراعات یافتہ طبقہ ہوا ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستانیوں کے حصے کا اناج کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے مقامیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو جناب یہ خرید کر کھاتے ہیں اور ان غذائی اشیاء و خدمات پر جتنے بھی ٹیکس ہیں ، وہ یہ ادا کرتے ہیں تو پھر کس طرح سے یہ پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کررہے ہیں ۔ اس کے الٹ یہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ افغانی شاید وہ واحد لوگ ہیں جن کے کمسن بچے بھی کام کرتے ہیں ۔ اس طرح سے تو یہ زیادہ ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ایک عام پاکستانی سے زیادہ ڈال رہے ہیں ۔ ان 37 لاکھ لوگوں کو جیسے ہی آپ ملک سے نکالیں گے ، نہ صرف ملک کی مجموعی قومی پیداوار کم ہوجائے گی بلکہ اسی لمحے مارکیٹ بھی سکڑ جائے گی ۔ کپڑے ، جوتے ، کھانے غرض ہر ضرورت زندگی کی طلب اتنی ہی کم ہوجائے گی ۔ کوئی معیشت داں کیسے یہ تصور کرسکتا ہے کہ اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے ہاتھ سے جانے دے ۔ اگر جنوبی افغانستان آپ پر انحصار کرتا ہے تو اسے عطیہ خداوندی سمجھیں اور اس مارکیٹ میں مزید قدم جمائیں ۔ کوشش کریں کہ اپنی مصنوعات کو پہلے شمالی افغانستا ن اور پھر ملحقہ وسط ایشیا کے ممالک تک پہنچائیں ۔ وہاں پر بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں قائم کریں اور روابط کو تجارت سے آگے بڑھا کر ایک درجے اور اوپر تک لے جائیں ۔
اگر افغانستان سے تجارت باقاعدہ نہیں ہے اور بذریعہ اسمگلنگ ہے تو اس میں قصور کس کا ہے ؟ یہ کمال ان لوگوں کا ہے جو سرحد پر اسی کام کے لیے بیٹھے ہیں ۔ یہ مت بتائیں کہ اسمگلنگ غیر روایتی راستوں سے ہوتی ہے ۔ جناب یہ ساری اسمگلنگ دن کے اجالے میں ٹرکوں کے قافلے کی صورت میں ہوتی ہے ۔ غیر روایتی راستے پر ٹرک نہیں چل سکتے ۔ تو پھر پاکستان کی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار کون ہوا ؟ وہ لوگ جو دن رات سرحد پر بیٹھے پیسے بنا رہے ہیں اور ان کے ذمہ داران جو اپنا حصہ ہنسی خوشی وصول کررہے ہیں ۔
پوری دنیا میں ان لوگوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے جو آپ کے ملک میں سرمایہ کاری لے کر آئیں ۔ یورپ ، کینیڈا اور آسٹریلیا و نیوزی لینڈ بھی ایسے لوگوں کو اپنے ملک کی شہریت کی پیشکش کرتے ہیں جو ان کے ملک میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ اب تو دبئی اور سعودی عرب بھی ایسے لوگوں کو طویل مدتی ویزوں کی پیشکش کرنے لگے ہیں ۔ یہ پاکستان کے بزرجمہر الگ ہی دنیا میں رہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بھی جو آپ کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ، انہیں پکڑ کر کہتے ہیں کہ تشریف لے جائیے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انہیں ان کی اپنی رقم بھی لے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔
کہا یہ گیا کہ ہم سارے افغانوں کو نہیں کہہ رہے کہ وہ پاکستان چھوڑ دیں بلکہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو اس کے لیے کہا جارہا ہے ، مگر عملی طور پر یہ ہورہا ہے کہ جسے چاہا ، اسے پکڑ کر سرحد پر پہنچا دیا ۔ ہماری پولیس اور ایجنسیاں کس رعونت سے پیش آتی ہیں ، اس کا مظاہرہ میں اور طارق ابوالحسن طورخم سے افغانستان جاتے ہوئے بھی اور پاکستان واپسی میں بھی دیکھ چکے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ چمن بارڈر پر بھی دیکھ چکے ہیں ۔ ہم تو پاکستانی تھے ، صحافی تھے اور بااثر تھے ، اس کے باوجود ان کا رویہ ناقابل برداشت تھا ۔ کسی کو دشمن بنانے کے لیے مزید کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہے ، اس کے لیے یہ ایف آئی اے امیگریشن ، اینٹی نارکوٹکس، کسٹمز ، محکمہ صحت ، پولیس وغیرہ وغیرہ کے اہلکار ہی کافی ہیں ۔
حقائق یہ ہیں
(1)سوات میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کو عمرانی دور حکومت میں نہ صرف واپس آنے کی باقاعدہ اجازت دی گئی بلکہ سہولیات بھی مہیا کی گئیں جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی دوبارہ سے کارروائیاں شروع ہوئیں اور ان جنگجووں کو دوبارہ سے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ مل گئی ۔ اب پھر سے ان علاقوں میں نو گو ایریا وجود میں آنے شروع ہوگئے ہیں ۔
(2) ناٹو کے جو بھی کنٹینر غائب ہوئے اور اسلحہ ان دہشت گردوں تک پوری منصوبہ بندی سے پہنچایا گیا ، اس میں پاکستان نے خود سہولت کاری کا کردار ادا کیا ۔
(3) جو بھی ملک سے اسمگلنگ ہورہی ہے ، اس میں ایک عام آدمی کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ اس میں بڑی مچھلیاں اور پاکستانی سہولت کار برابر کے شریک ہیں
(4 ) ڈالر کی اسمگلنگ افغانستان بھی ہورہی ہوگی مگر اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ۔ منی لانڈرنگ کا پیسہ پاکستانیوں کا ہے جو انہوں نے کرپشن کے ذریعے بنایا ہے اور اسے یورپ ، دبئی وغیرہ بھیجا جاتا ہے ۔ غیر ملکی بینکوں میں سارے ہی پاکستانیوں کے بھاری بینک اکاونٹس اس کا ثبوت ہیں ۔ گاہے بگاہے آنے والے لیکس بھی اس کا بھانڈا پھوڑتے رہتے ہیں ۔ آپ سارے ہی افغانیوں کو ملک بدر کردیں ، یہ اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ اسی طرح جاری و ساری رہے گی کہ اس کے انسداد کے ذمہ دار ہی اس کے سہولت کار ہیں ۔
یہ مختصر جائزہ تھا کہ افغانوں کو اس طرح ملک بدر کرنے کے پاکستان پر کیا معاشی اثرات ہوں گے ۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان پر کیا اسٹراٹیجک زد پڑے گی ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے آپ خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔