(تحریر:سعید خاور )
اظہار اجی کوئی عام شخص نہیں تھا، نوائے وقت کراچی میں اس کا طوطی بولتا تھا، چھوٹے بڑے سب اسے "ابا” کہتے اور اس کا دل سے احترام کرتے تھے، ابا اظہار کو اس قدر عزت اس کے ذاتی کردار، دلربا شخصیت اور مجید نظامی صاحب کا ذاتی ڈرائیور ہونے کی وجہ سے ملتی تھی- جب اکتوبر 1979 میں نوائے وقت کا کراچی سے اجرا ہوا تو کراچی کی قدیم بستی گزری کا اظہار احمد پہلا شخص تھا جسے مجید نظامی صاحب نے بہ طور ڈرائیور تقرر نامہ جاری کیا- اظہار "اجی” کی سادگی اور کم گوئی مجید نظامی صاحب اور ان کی بیگم کو ایسی بھائی کہ انہوں نے اس کی خدمات اپنی ذات اور مصروفیات تک محدود کر لیں- وہ چند ہی برسوں میں نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ کا لاڈلا ہو گیا- پہلی تقرری اور مجید نظامی صاحب کی قربت نے اسے سب کا "ابا” بنا دیا- سب اسے "ابا” کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور وہ خوش دلی اور خندہ پیشانی سے سب کو "جی ابا” کہہ کر جواب دیتا- بلکہ کبھی کبھی تو مجید نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ بھی اسے اس کے نام اظہار کی بجائے کنیت "ابا” سے مخاطب کرتے-
مجید نظامی صاحب جب بھی کراچی آتے، اظہار ان کی اور اس کی بیوی، بیگم صاحبہ کی دن رات خدمت پر مامور رہتے- یوں اظہار اس بے اولاد دولت مند جوڑے کی دس بارہ سال دل و جان سے خدمت کرتا رہا- اچانک ایک روز نظامی صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ نے لاہور سے کراچی آمد پر "ابا” کو ایک نومولود بچی کا سرپرائز دیا- معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ نے اپنے خاندان کی ایک نومولود بچی کو گود لے لیا ہے- بیگم صاحبہ کی ملی بھگت سے منصوبہ سازوں نے یہ بچی یہ کہہ کر نظامی صاحب کو پیش کر دی کہ اس کی وجہ سے آنگن میں گلکاریاں اور خوشیاں پھیلی رہیں گی- نظامی صاحب لے پالک رمیزہ بٹ کو اپنا نام اور حسب نسب دان کر دیا تو رمیزہ بٹ رمیزہ نظامی ہو گئی- اظہار "ابا” نے اس نومولود بچی کو برسوں گودوں کھلایا، نظامی صاحب کی یہ لے پالک بچی اپنے ابا اور اماں کی تقلید میں اظہار کو "ابا” ہی کہہ کر پکارنے لگی-
وقت نے کروٹ لی، بچی بڑی ہو گئی اور جب وہ لندن سے گریجوئشن کر کے واپس آئی تو منصوبہ سازوں نے چند ہی برسوں میں نظامی صاحب کو ان کے بھتیجے اور نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم کے صاحب زادے عارف نظامی سے متنفر کر کے اسے ادارے سے چلتا کرایا، بڑی رکاوٹ راہ سے ہٹانے کے بعد دھیرے دھیرے نظامی صاحب کے اربوں روپے کے سارے اثاثے لے پالک رمیزہ کو منتقل کرائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ مجید نظامی صاحب کا نوائے وقت گروپ میں کردار ختم کر کے انہیں "نظریہ پاکستان ٹرسٹ” تک محدود کر دیا گیا- یوں مجید نظامی صاحب جیتے جی اپنے ہی ادارے نوائے وقت میں اجنبی ہو کر رہ گئے اور راوی کہتا ہے کہ وہ جب بھی کبھی تھوڑی بہت دیر اپنے دفتر آ کر بیٹھتے، ہمہ وقت خلائوں میں گھورتے رہتے-
نوائے وقت گروپ کا زوال تو خیر نظامی صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا کہ جب ان سے چینل، اخبارات، جرائد اور املاک و اثاثے بد نیتی سے ہتھیا کر انہیں عضو معطل بنا دیا گیا تھا لیکن 2014 میں ان کی وفات کے بعد تو یہ تاریخی ادارہ رمیزہ بٹ کی مکمل گرفت میں آنے کے بعد ریت کی دیوار ثابت ہوا- مجید نظامی صاحب کے بہی خواہوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ادارہ چھوڑ جائیں اور وفادار ملازموں کو چن چن کر جبری ریٹائر اور برطرف کیا گیا اور سیکڑوں کارکنوں کو تنخواہیں اور واجبات دیئے بغیر گھر بھیج دیا گیا، یوں نوائے وقت کی عزت سڑکوں پر آ گئی-
40 سال تک نوائے وقت کی گاڑی کا پہیہ چلانے والا، نظامی صاحب اور بیگم صاحبہ کا خدمت گار اور لے پالک مالکن رمیزہ بٹ کو برسوں گودوں کھلانے والا وفادار، وفاشعار اظہار "ابا” بھی اس مہم کی سفاکیت سے بچ نہیں سکا اور تہی دست سڑک پر آ گیا- آج نوائے وقت کا "ابا” لے پالک بیٹی رمیزہ بٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا ہے- اس کے بچے خوشیوں کو ترس گئے ہیں، ہر وقت مسکراتے رہنے والا "ابا” اکثر افسردہ رہنے لگا ہے- وہ بھی احتجاجا متاثرین نوائے وقت کے قافلے میں شریک ہو گیا ہے- "ابا” نے اپنے ہر لبادے پر "متاثرین نوائے وقت” کی مہر چسپاں کر رکھی ہے- اظہار بھائی، اجی، ابا ۔۔۔۔۔ خاطر جمع رکھو، ظلم اور ناانصافی کا سورج غروب ہونے والا ہے، رمیزہ بٹ کا غرور جلد خاک میں ملنے والا ہے، وہ دن دور نہیں کہ جب آپ کو آپ کا حق ملے گا، آپ کو آپ کی پائی پائی کا حساب دیا جائے گا-
ان شااللہ تعالی