کراچی (رپورٹ۔اسلم) ملیر دیولپمنٹ اتھارٹی
(MDA) کے دو بڑوں کی کشمکش کی وجہ سے ادارے میں تمام کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، اس لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے مالیت کی شہریوں کی زمینوں پر لینڈ مافیا کا قبضہ تیزی سے جاری ہے لیکن اس پر ایکشن لینے والا کوئی نہیں ہے۔ ڈی جی اور ایڈیشنل ڈی جی نے قانون و قانونی تقاضے اور اعلی عدالتوں کے فیصلوں کے برعکس بڑے پیمانے پر اختیارات کا ناجائز استعمال کے ایک دوسرے پر الزمات عائد کرتے ہوئے سیکریٹری بلدیات سندھ سے تحریری طور پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔ اینٹی کرپشن نے ادارے میں مالی انتظامی بدعنوانی کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر سیکریٹری بلدیات نجم احمد شاہ اور چیف سیکریٹری نے معاملات حل نہ کیئے تو عدالت سے رجوع کریں گے جس سے ادارے کی بہت بدنامی ہو گی۔واضح رہے کہ یکم نومبر 2022ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ڈبل بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (لینڈ، ایڈمنسٹریشن) کو ہراساں کرنے، انتقامی کاروائی کرتے ہوئے سرکاری مراعات واپس لینے اور تبادلہ کا حکمنامہ منسوخ کرتے ہوئے سہیل خان کو ان کے عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے تمام حکمنامہ معطل کردیا ہے۔ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سہیل خان ادارے (MDA) کے مستقل ملازم ہیں۔نئے ڈائریکٹر جنرل MDA نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد سہیل خان کی تنخواہ روک دی،گاڑی واپس کرنے،پیٹرول بند کرنے اور گھر خالی کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔اس کے ساتھ بلاجواز انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔قانون کے مطابق ملازم جن مراعات کا حقدار ہوتا ہے وہ اس سے ریٹائرمنٹ تک واپس نہ لی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اس کو دی گئی سہولیات کو روکا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آغا فیصل اور جسٹس جیند غفور پر مشتمل ڈبل بینچ نے سہیل خان کی ایک آئینی درخواست نمبر C,P No,D-6623/2022 پر اپنے حکمنامے میں ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر بلوچ کے تمام اقدمات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 18نومبر کو ان سے طلب کرلیا ہے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف عدالتی احکامات پر توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔ سہیل خان کو پہلے بھی ڈھائی تین سال تک تعیناتی نہیں دی گئی تھی، اس دوران کے ایک منظم انداز میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تیسر ٹاون اسکیم 45 کی تقریبا 14 ہزار ایکڑ اراضی پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر کے سرکار کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ قبصہ مافیا کی وجہ سے تیسر ٹاون کے ساتھ نیو ملیر ہاؤسنگ اسکیم کے ہزاروں الاٹیز کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کے خدشات پیدا ہو چکا ہیں۔ کراچی سسٹم (کراچی کی زمینوں پر قبضے کا سسٹم جس کی سرپرستی ڈیفیکٹو وزیر اعلی کرتی ہیں) اور لینڈ گریبرز نے انتظامیہ کی غفلت و لاپرواہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی مجموعی طور پر کھربوں روپے مالیت کی 14 ہزار 4 سو 66 ایکڑ اراضی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے جبکہ اس میں سے قرعہ اندازی اور نیلامی کے ذریعے لوگوں کو الاٹمنٹ کیے گئے 78 ہزار 291 رہائشی پلاٹس پر لینڈ مافیا نے کچے پکے، 43 غیر قانونی گوٹھوں کے نام پر مکان بنا کر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کا انکشاف ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے صوبائی حکام کو بھیجی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ سہیل خان کے بطور ڈی جی تقرری کے بعد ماہ جون میں اپنی دوبارہ تقرری کے بعد 1180 ایکڑ اراضی لینڈ مافیا سے واگزار کروا کر لینڈ کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی تھی۔ مذکورہ ایم ڈی اے کی زمین پر موجود 78 ہزار 291 رہائشی اور تجارتی پلاٹس میں 80، 120، 240 اور 400 مربع گز کے پلاٹس ہیں جن میں 80 فیصد پلاٹوں کا قبضہ الاٹیز کو دیا بھی جا چکا تھا، جس پر الاٹیز نے تعمیراتی کام شروع بھی کرادیا تھا۔اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ( A&L) گریڈ 20 کا عہدہ ہے، یہ عہدہ ممبر ایڈمنسٹریشن اینڈ لینڈ تھا۔ اتھارٹی کی گورننگ باڈی نے شیڈول کلاز ٹو بی پاور (اپارٹمنٹ، پرموشن، ٹرانسفر، گرانڈ آف لیف) میں 2015 میں ترامیم کی گئی تھی کہ ڈائریکٹر جنرل اختیار نہیں ہے بلکہ یہ اختیار بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ہے۔نئے ڈی جی نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ادارے میں لینڈ مافیا کے سہولت کار افسران کی بڑے پیمانے پر تعینات کی جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ پلاننگ، اسٹیٹ، لینڈ، اینٹی انکروچمنٹ، پروجیکٹ میں جونیئر افسران کی تقرری لمحہ فکریہ بھی ہے اور عدلیہ کے فیصلوں سے انحراف بھی ہے۔ان افسران میں کئی افسران پر قتل، اقدام قتل، دہشت گردی، زمینوں پر قبضہ کے الزامات میں مقدمات درج ہیں۔تمام ڈپارٹمنٹ کے سربراہوں کو ایک خط کے ذریعہ آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ادارے میں موجود قوانین کو قواعد و ضوابط کے ساتھ عملدرآمد کو انتظٓامی، مالیاتی خاص طور فنڈز کے اخراجات یقینی بنائیں۔ کسی قسم کے پسند نہ پسند اور ایسے زبانی حکمنامہ پر عملدرآمد سے اجتناب کیا جائے جس سے انکوائریز ،انوسٹی گیشن یا عدالت کا جوابدہ اور اس کا سامنا کرنا پڑے، اس کے وہ خود ذمہ دار ہوں گا۔ ایڈیشنل ڈی جی سہیل خان نے ادارے کے سربراہوں کو لکھے اپنے خط میں ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ، پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ساتھ تمام رہائشی اسکیموں میں عدلیہ کے بعض فیصلے کی کھلے خلاف ورزی کرتے ہوئے تقرری و تبادلے کی بھی نشاندہی کی ہے۔
ادارے میں او پی ایس افسران کی تقرری جاری ہے جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے،ادارے میں ضم ہونے والے افسران کو انتقامی نشانہ بناتے ہوئے ان کو ایم ڈی اے سے ایک حکم نمبر DG/MDA/2022/3070-L بتاریخ 28 اکتوبر 2022ء بلا جواز اور عدالتی حکم کے کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے سیکریٹری بلدیات سندھ سید نجم شاہ سے استدعا کی ہے کہ عدالتی خلاف ورزی پر نوٹس لیتے ہوئے ان افسران کے حکمنامہ کو فوری منسوخ کرکے عہدوں پر بحال کیا جائے،جبکہ سیون ڈیولپمنٹ اتھارٹی گریڈ 14کے عارضی ملازم آغا زبیر کو 6 اکتوبر 2022 میں غیر قانونی تعیناتی کے عمل کی نشاہدی بھی کی ہے،جن کو 7 جولائی 2022ء کو ایک حکمنامہDG.MDA./2022/L-1854 منسوخ کردیا گیا تھا، جبکہ ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر بلوچ نے صوبائی سیکریٹری بلدیات کو تین صفحے پر مشتمل خط میں سہیل خان کو ون مین شو قرار دیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ وہ KDA اور KMC افسران کے ذریعہ کام کررہے ہیں جو بڑے پیمانے پر مالی و انتظامی بدعنوانی میں ملوث ہیں، جبکہ 30 سال پرانی اسکیموں (شاہ لطیف ٹاون، نیو ملیر اسکیم، تیسر ٹاون) کو نامکمل ہونے کا بھی ذمہ دار بھی انہیں قرار دیا گیا ہے۔ ڈھائی سال عہدہ پر نہ ہونے کے باوجود ان اسکیموں پر تجاوزات بھی سہیل خان نے کرائیں۔ انہوں نے اپنے خط کے ذریعے اینٹی کرپشن پولیس کو تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہیں اور 11 اکتوبر 2022ء کو اینٹی کرپشن کو ارسال کردہ خط میں 60 کروڑ روپے اخراجات میں خردبرد کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ پابندی کے باوجود گاڑیوں کی خریدی کی گئی۔ کیمپ آفس اور رہائش گاہ پر غیر قانونی قبضے کے الزامات عائد کرتے ہوئے اینٹی کرپشن پولیس کو سہیل خان کی تقرری کی تحقیقات کے احکامات پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان کی تقرری 1991ء میں بطور فوٹو گرافر کی حیثیت سے ہوئی تھی، اس حوالے سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان الزامات پر مشتمل خط نمبر DG/MDA/2022/3234 بتاریخ 11 اکتوبر 2022ء سیکریٹری بلدیات سندھ سید نجم احمد شاہ کو ارسال کیا گیا ہے۔