اظہر علی اپنے کریئر کے آخری ٹیسٹ میچ کی آخری اننگز میں کوئی رن نہ بنا سکے۔پیر کے روز اپنے ٹیسٹ میچ کی آخری اننگز کھیلنے والے اظہر علی صرف چار گینوں کا سامنا کرنے کے بعد جیک لیچ کی گیند پر صفر پر بولڈ ہو گئے۔اگرچہ اپنے آخری ٹیسٹ میں اظہر علی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ سکے تاہم آخری اننگز کے بعد گراؤنڈ سے باہر جاتے ہوئے انھیں انگلش ٹیم کی جانب سے ان کے کیریئر پر داد دی گئی۔اظہر علی کے کیریئر پر بی بی سی نے یہ تحریر چند روز قبل شائع کی تھی جسے آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
یہ سال 2010 کی بات ہے جب پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کی طرح اس کی کرکٹ ٹیم بھی ایک اور ’نازک دور‘ سے گزر رہی تھی۔کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان تناؤ عروج پر تھا اور ایک سال قبل ہی سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد کسی بھی غیرملکی ٹیم کا پاکستان کا دورہ کرنا، آنے والے کئی برسوں تک ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ایسے میں آسٹریلیا کا دورہ پاکستان انگلینڈ منتقل کر دیا گیا تھا جس میں دو ٹیسٹ اور دو ٹی ٹوئنٹی کھیلے جانے تھے۔پاکستان ٹیم کے دو مایہ ناز بلے باز اور سابق کپتان یونس خان اور محمد یوسف پر کرکٹ بورڈ کی جانب سے سال کے اوائل میں تاحیات پابندی لگا دی گئی تھی جس کے بعد محمد یوسف نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔آخری اننگز کے بعد انگلش کھلاڑیوں نے اظہر علی کو ان کے کریئر پر داد دیایسے میں انگلینڈ میں شاہد آفریدی کی کپتانی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ آرڈر میں نمبر تین اور چار کی پوزیشنز پر دو بلے باز ڈیبیو کر رہے تھے: اظہر علی اور عمر امین۔اظہر علی کے بارے میں یہی مشہور تھا کہ انھوں نے بطور لیگ سپنر کرکٹ کا آغاز کیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بیٹنگ میں اتنی بہتری لے آئے کہ انھیں پہلے پاکستان اے اور پاکستان ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔کسی بھی بلے باز کے لیے انگلینڈ کی کنڈیشنز اور وہاں آسٹریلیا کی بولنگ کے سامنے کھیلنا ایک انتہائی دشوار تجربہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ آپ کا پہلا ٹیسٹ میچ ہو اور آپ بیٹنگ بھی نمبر تین پر کرنے آئیں تو اس دشواری کو 10 سے ضرب دے دیں۔تاہم اس تمام دباؤ کے درمیان اظہر علی نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہی اپنی سادہ تیکنیک اور پچ پر دیر تک کھڑے رہنے کی صلاحیت سے دیکھنے والوں کو متاثر کیا اور پھر آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ایک اہم موقع پر نصف سنچری بھی سکور کی، جو پاکستان کی جیت میں اہم ثابت ہوئی۔
اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی اظہر علی نے مایوس نہیں کیا اور اوول ٹیسٹ میں 92 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی اور پاکستان کی اس سیریز میں واحد فتح کی بنیاد رکھی۔
آنے والے برسوں میں اظہر علی کی شناخت ایسے بلے باز کے طور پر ہونے لگی جو بہت سٹائلش تو نہیں تھا لیکن ضرورت پڑنے پر اپنی محنت کے ذریعے وہ مشکل کنڈیشنز میں رنز بنانے کا گُر جانتا تھا۔پھر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم مصباح الحق کی کپتانی میں متحدہ عرب امارات میں کھیلنے لگی اور یہاں سے اظہر علی کے ٹیسٹ کریئر میں اٹھان کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔’اگر اظہر علی مجروح وقار بحال نہ کر پائے؟’ٹیم میں یونس خان کی واپسی کے بعد اب پاکستانی بیٹنگ کم از کم ان کنڈیشنز میں خاصی مضبوط ہو چکی تھی اور اظہر علی اب ایک ایسی ٹیم کا اہم جزو بن چکے تھے جو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آنے والی تھی۔اس دور میں پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں یادگار فتوحات حاصل کیں اور ان میں سے کئی ایک میں اظہر علی کا نمایاں کردار تھا لیکن اس دوران انھیں وہ پذیرائی نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔اظہر نے گذشتہ دہائی میں پاکستان کی اکلوتی ٹرپل سنچری سکور کی۔ ان کے پورے ٹیسٹ کریئر میں کل 19 سنچریاں اور 35 نصف سنچریاں شامل تھیں اور وہ سات ہزار رنز سکور کرنے والے پانچ پاکستانی بلے بازوں میں سے ایک ہیں۔
سنہ 2014 سے 2017 کے درمیان اظہر علی بہترین فارم میں رہے اور اس دوران انھوں نے نو سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں سکور کیں۔ان تمام ریکارڈز کے درمیان اظہر علی ہمیشہ سے خاموش، سادہ مزاج اور ’جینٹل مین‘ کھلاڑی کے طور پر جانے گئے۔انھیں پاکستان کی ون ڈے اور ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی بھی ایسے لمحات میں سونپی گئی جب ٹیم ٹرانزیشن کا شکار تھی اور اس سے اچھی کارکردگی کی امید نہیں لگائی جا سکتی تھی۔انھیں سنہ 2015 کے ورلڈ کپ میں شکست کے بعد ون ڈے ٹیم کی کپتانی سونپی گئی۔ دو سال سے بھی کم عرصے تک یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد انھیں اس سے بھی برخاست کر دیا گیا۔اسی طرح ٹیسٹ میچوں میں مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار پھر انھیں کپتانی دی گئی اور صرف نو میچوں میں کپتانی کے بعد خراب فارم اور ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد کپتانی دوبارہ ان سے لے لی گئی۔اظہر علی کو ایک موقع پر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں بطور اوپنر بھی کھلایا گیا اور انھوں نے اس پوزیشن پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی ۔اظہر علی کے کریئر کی سب سے یاد گار سنچری شاید سری لنکا کے خلاف چوتھی اننگز میں 302 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے بنائی گئی تھی۔ یہ ایک جارحانہ اننگز تھی جس کی توقع عام طور پر اظہر علی سے نہیں کی جاتی۔ لیکن اپنے پورے کریئر کی طرح یہاں بھی انھوں نے ایک ایسی صورتحال میں خود کو تبدیل کیا جہاں ٹیم کو ان کی ضرورت تھی۔
اپنے ٹیسٹ کریئر میں آخر تک ان کی شناخت ایک ایسے کھلاڑی کی طرح رہی جس نے مشکل وقت میں پاکستان کی ٹیم کو اس وقت سہارا دیا، خاص طور پر اس وقت جب اور کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔