کپتانی ان کے لیے ایک فائدہ مند تجربہ رہا ہے، لیکن اس نے ان پر کام کے بوجھ میں اضافہ کیا۔ان کا کہنا تھا ’میں اپنی کارکردگی کو ترجیح دینا، اپنی بلے بازی سے لطف اندوز ہونا اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔‘بابر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی کپتانی کی ذمہ داری سے الگ ہونے کے بعد وہ اپنے کھیل کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دے سکیں گے اور وہ ایک کھلاڑی کے طور پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہنے کے لیے پرجوش ہیں۔اپنے بیان میں انھوں نے غیر متزلزل حمایت اور ان پر بھروسہ کرنے کے لیے مداحوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔بابر اعظم کو سنہ 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد دونوں وائٹ بال فارمیٹس کی کپتانی جبکہ سنہ 2020 میں ٹیسٹ کرکٹ میں بھی کپتانی کے فرائض سونپے گئے تھے۔اس کے بعد سے بابر اعظم کی فارم میں گذشتہ کپتانوں کے برعکس بہتری دیکھنے کو ملی تھی اور سنہ 2022 تک وہ اپنی فارم کے تسلسل کے باعث دنیا کے بہترین بلے بازوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔بابر کی زیر قیادت پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ٹیمیں دونوں ہی آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں سرِ فہرست رہیں تاہم ان پر فیصلہ کن مواقع پر غیریقینی کا شکار ہونے کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی۔سنہ 2023 میں انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد بابر اعظم نے ٹیم کی کپتانی سے استعفی دے دیا تھا جس کے بعد شان مسعود کو ٹیسٹ جبکہ شاہین آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان مقرر کیا تھا۔سنہ 2024 کے آغاز میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین پھر تبدیل ہوئے اور اس مرتبہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے نو عمر کپتان شاہین آفریدی کی شامت آئی اور ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے ٹیم کی کپتانی ایک بار پھر بابر اعظم کو سونپ دی گئی۔ تاہم آئرلینڈ سے شکست، انگلینڈ سے سیریز ہارنے اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے ہی راؤنڈ میں امریکہ اور انڈیا سے شکست کے بعد انھیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔