کراچی(اسپورٹس ڈیسک )دنیائے کرکٹ میں کئی کھلاڑی اپنی جارحیت اور جوشیلے انداز سے جانے جاتے ہیں تو بھت سے کھلاڑی اپنی دھیمی اور خاموش طبعیت کی وجہ سے معروف ہیں اور میرے مطابق ایک کھلاڑی ایسے تھے جس کی طبعیت سب سے منفرد اور جداگانہ شخصیت کی حامل تھی جو ہمیشہ آپ کو مسکراتا ہی ملتا اور یہ صفت آپ کہہ سکتے ہیں اس کے فطرت سے ہی جڑی تھی وہ اگر بلند وبالا فلک بوس چھکے لگاتا یا سچن ٹنڈولکر جیسے بڑے بلے باز کی نائنٹیز میں وکٹیں ہوا میں اڑاتا بس اس نے دلنشین انداز میں مسکرانا تھا،وہ ایسے وقت میں بھی مسکرایا جب کروڑوں کی تعداد میں قوم کی دھڑکنیں غیر معمول رفتار سے چل رہی ہوتی کوئی اعصاب شکن مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے جذبات سے معمور جوشیلا یا غم سے نڈھال ہوتا،مقابلہ یکطرفہ طور پر حریف کے پلڑے میں ہوتا اور وہ اس اثنا بھی مسکراتا نظر آتا،وجہ یہ تھی کہ اسے اپنے رب پر انتہاء درجہ کا توکل اور بھروسہ تھا قدرت نے اس کے بازو میں بلا کی طاقت ودیعت فرمادی تھی وہ ایسے خداداد صلاحیتوں سے مالامال تھا کہ حریف کے منہ سے فتح کو چھین لاتا اور شکست کو بزور بازو اس کا مقدر ٹہراتا۔قارئین گرامی!میں بات کررہا ہوں سابق شہرہ آفاق،میچ ونر اور ٹاپ کلاس،کوالٹی آل راؤنڈر عبدالرزاق کی جنہوں نے اپنی جارحانہ بلے بازی اور کاٹ دار پیس بولنگ سے اپنے تو کیا غیروں کے ہاں بھی مقام بنایا تھا۔
سابق کیوی کپتان سٹیفن فلیمنگ نے انہیں اپنے دور میں کرکٹ کا بہترین آل راؤنڈر قرار دیا تھا جبکہ متعدد کمنٹیٹرز کی جانب سے انہیں "The soldier” کا لقب دیا گیا تھا،ایک بار شاہد خان آفریدی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "آج سے میں بوم بوم نہیں بلکہ عبدالرزاق بوم بوم ہیں”۔عبدالرزاق شاندار صفات کا حامل ورلڈ کلاس آل راؤنڈر تھا جس نے ڈیبیو کرتے ہی وسیم اکرم کی ٹیم میں مستقل جگہ بنالی تھی اور پلیئنگ الیون میں عظیم وسیم اکرم کے پہلے پسندیدہ کھلاڑی ہوا کرتے تھے،افسوس سے کہنا پڑتا ہیکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کو ضائع کرنے میں ہمیشہ مقدم رہی یقین کیجیے اگر "رضی” آسٹریلیا،انگلینڈ اور افریقہ وغیرہ میں ہوتے تو جیک کیلس،فلنٹاف اور واٹسن کے ناموں سے دنیا ناآشنا ہوتی۔عبدالرزاق 2 دسمبر 1979 کو پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیدا ہوئے اور نومبر 1996 کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں زمبابوے کے خلاف ونڈے میچ میں عالمی کرکٹ میں شروعات کی اور نومبر 2013 کو دبئی کے گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ کے خلاف اپنا آخری عالمی مقابلہ کھیل کر کھیلوں کو الوداع کہا۔میں اگر عبدالرزاق کے بدولت جیتے گئی میچز کے احوال لکھنا شروع کردوں تو شاید لکھنے کا سلسلہ تھم نہیں پائے گا کیونکہ عبدالرزاق نے متعدد بار اپنی بیٹنگ اور بولنگ سے میچز کا پانسہ پلٹایا ہے جو اگر نووارد شائقین دیکھ لیں تو بمشکل یقین کرپائنگے۔
کراچی میں بھارت کے مدمقابل ٹیسٹ جو بالکل بھی بھولنے کے قابل نہیں جب عرفان پٹھان اور ظہیر خان نے ابتدا میں ہی کاری وار کرتے ہوئے پاکستانی بیٹنگ لائن کا شیرازہ بکھیر دیا تھا جس میں عرفان پٹھان کی شاندار ہیٹ ٹرک بھی شامل تھی جس میں سلمان بٹ اور بالخصوص کپتان یونس خان اور محمد یوسف جیسے بلند پایہ بلے باز نشانہ بنے تھے ان کے علاوہ فیصل اقبال،عمران فرحت اور شاہد آفریدی جیسے اہم ستون گرچکے تھے اور ٹیم 39 پر آدھی سے بھی زیادہ پویلین لوٹ گئی تھی،ٹیم پر شرمناک شکست کے بادل منڈلارہے تھے اس دوران عبدالرزاق نے وکٹ پر آکر وکٹ کیپر کامران اکمل کے ساتھ شاندار شراکت قائم کی جس میں 45 رنز بٹور کر ٹیم کا ہدف 245 تک لے گئے۔پھر مدمقابل انڈیا کے کھلاڑیوں پر بولنگ کرتے ہوئے بھی ٹوٹ بڑے اور سچن ٹنڈولکر،سارو گنگولی اور مہندرا سنگھ جیسے نامور بلے بازوں کو آوٹ کیا،دوسری اننگ میں رضی کا جادو ہھر سے سر چڑھ کر بولا اور سٹار آل راؤنڈر نے 90 رنز کی اننگز کھیلی،بھارتی سورماؤں کو رضی نے ان کے دوسری اننگز میں بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور مزید چار شکار کرکے ہندوستان کو ناکامی کا طوق گلے میں پہنایا۔
ایسے کئی میچز ہیں جو تن تنہا عبدالرزاق نے جتوائے،1999 ورلڈکپ کا ابتدائی میچ کس کو یاد نہیں ہوگا جب پاکستان کے دیئے گئے 228 کے تعاقب میں ویسٹ انڈین ٹیم پر رضی کی یلغار جہاں ابتدائی تین بلے بازوں کو ڈھیر کرکے ان کے لئے معمولی ہدف کو کوہ گراں بنادیا تھا،اسی ورلڈکپ کے گروپ مرحلہ میں آسٹریلیا کو مات دینے میں بھی رضی کی 60 رنز باری شامل تھی،یونائیٹڈ سہ ملکی سیریز میں بھارت کے خلاف ایک ہی میچ میں پانچ وکٹوں کا کارنامہ اور 70 رنز کی برق رفتار باری کس کو یاد نہیں ہوگی یہی وہ سیریز تھی جس میں عظیم گلن میگراتھ کو رضی کے ہاتھوں 5 گیندوں پر 5 چوکے بھی رسید ہوئے تھے،اسی سیریز میں 14 وکٹوں اور 225 کے ساتھ پلیئر آف دی سیریز بھی عبدالرزاق ٹہرے تھے۔
جون 2000 میں سری لنکا کے خلاف گال ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کرکے وہ کم عمر ترین بولر بن گئے تھے اسی طرح 2002 میں افریقہ کے خلاف 112 رنز کی باری اور افریقہ ہی کے خلاف 2010 میں ہدف کے تعاقب میں مشکلات میں گھری ٹیم کا بیڑہ پار کرنے میں 10 چھکوں کی مدد سے کھیلی گئی 109 رنز کی باری تو ہر زباں زد عام ہے،2009 ٹؤنٹی ورلڈکپ فائنل میں بھی رضی نے سری لنکا کو شروع میں ہی ٹارچر کرکے فتح کی بنیاد ڈالی تھی اور میچ میں جے سوریا،جیہان مبارک اور مہیلا جیا وردھنا جیسی وکٹیں اکھاڑ کر جیت میں کلیدی کردار نبھایا تھا۔
مختصرا عبدالرزاق کا کیریئر ملاحظہ فرمائیں۔
ٹیسٹ کیریئر
میچز:45
اننگز:77
رنز:1946
بیسٹ:134
اوسط:28.61
سینچریاں:3
ففٹیز:7
وکٹیں:100
بیسٹ بولنگ فگرز:5/35
ونڈے کیریئر
میچز:265
اننگز:228
رنز:5080
بیسٹ:112
اوسط:29.70
سٹرائیک ریٹ:81.25
سینچریاں:3
ففٹیز:23
وکٹیں:269
بیسٹ بولنگ فگرز:6/35
ٹی ٹؤئنٹی فارمیٹ میں بھی 29 اننگز میں 46 ناٹ آوٹ کی بیسٹ باری سمیت 393 رنز 116 کے سٹرائیک ریٹ سے بنائے اور 20 وکٹیں حاصل کی۔بذات خود مجھے عبدالرزاق کا بیٹنگ سٹائل بھت پسند تھا جو کہ بالکل تصنع سے پاک خالص دیسی فطری انداز تھا بالخصوص وکٹ پر بیٹ رکھ کر اوپر بالکل پڑے ہونے کی مانند بال کے انتظار کرنے کا جو منظر ہوتا تھا یقینا دل کو موہ لیتا تھا۔