لاہور/لندن ( ایجنسیاں/نمائندہ خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے حکومت سے فوری الگ نہ ہونے کے پارٹی کے فیصلے کی توثیق کردی۔مسلم لیگ نے نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ فوری حکومت نہیں چھوڑی جائے گئی۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور ن لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان مشاورتی اجلاس ہوا جس کی اندرونی کہانی اب سامنے آگئی ہے۔لاہور میں وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اجلاس ہوا جو تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہا، مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ اجلاس ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی شریک ہوئے جبکہ میاں نوازشریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک تھے۔اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر اور سردار اویس لغاری بھی میں شریک ہوئے۔ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے معاملے پر نواز شریف اور شہباز شریف میں تبادلہ خیال ہوا، نواز شریف نے لانگ مارچ پر حکومتی پلان مرتب کرکے اسے اتحادی جماعتوں سے شیئر کرنے کی ہدایت کی ہے
ذرائع کے مطابق اجلاس میں سیاسی، معاشی اور آئینی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے بھی مشاورت کی گئی۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجلاس میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کو متاثر کرنے والی قوتوں کیخلاف پلان پر مشاورت کی گئی، نواز شریف نے شہباز شریف کو ہدایت کی کہ وفاقی بجٹ کی بھرپور تیاری کی جائے اور عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کی جائے۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو امن وامان کی صورتحال کو ہر صورت برقرار رکھنےکی ہدایت بھی کی ،اجلاس میں متعلقہ حکام کو پنجاب کی جیلوں کو صاف کروانے اور سیاسی شخصیات کو الگ سیل میں رکھنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔اجلاس میں نواز شریف نے وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’رانا صاحب! آپ امن امان کی صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے تیار رہیں۔‘یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ عمران خان کے کسی غیر آئینی فیصلے کو قبول نہیں کیا جائے گا، حکومت اور اتحادیوں کے فیصلے سے اہم شخصیت کو آگاہ کردیا گیا ہے، حکومت کیخلاف محاذ آرائی سے بھی سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ قوم کو انتشار پیدا کرنے والوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت ہر صورت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے اتحادیوں کے اجلاس میں حکومت نے مدت پوری کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اتحادی حکومت اس حوالے سے تذبذب کا شکار تھی کہ آیا آئینی مدت پوری کی جائے یا پھر قبل از وقت انتخابات کی طرف جایا جائے لیکن گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ اگست 2023 تک آئینی مدت پوری کی جائے گی۔حکومتی ذرائع کے مطابق گزشتہ رات اتحادی رہنماؤں کے درمیان ہونے والے رابطوں میں فیصلہ کیا گیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق مشکل فیصلے کرنے ہیں کیونکہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات مہنگے داموں پر لےکر سستے داموں پر دے رہی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے دنوں آصف زرداری کی اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی تھی، اہم شخصیت سے ملاقات کے بعد آصف زرداری نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں کی تھیں جن میں مشاورت کے بعد حکومت کی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اتحادی حکومت نے اپنی 13 سے 14 ماہ کی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے گورننس کو بہتر کرنا پڑے گاحکومتی ذرائع کا بتانا ہے گزشتہ روز اتحادیوں کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ عمران خان اسلام آباد میں جلسہ کر کے چلے جائیں گے تو ان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی، لیکن اگر عمران خان دھرنا دے کر حکومتی نظام کو مفلوج کریں گے تو انہیں قانونی طریقے سے روکا جائے گا، دھرنے سے اسلام آباد میں نظام زندگی متاثر ہوا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دو دن قبل تک ن لیگ قبل از وقت انتخابات کرانے کیلئے تیار تھی لیکن پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ قبل از وقت انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کا خیال تھا کہ اگر مشکل فیصلے لیے اور اتحادی چھوڑ گئے تو انتخابات میں بڑا نقصان ہو گا لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومتی اتحاد نے مشاورت کی اور فیصلہ ہوا کہ اگر اس طرح لوگوں کو لا کر حکومت ختم ہوئی تو غلط مثال قائم ہو گی لہٰذا حکومت مشکل فیصلے کرے گی اور عمران خان نے امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا تو اسے قانونی طریقے سے حل کیا جائے گا