کراچی( بیورو رپورٹ) آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی)کی طرف سے منعقدہ تیرہویں کراچی لٹریچر فیسٹول (کے ایل ایف) کے دوسرے روز بھرپور مباحثوں کا انعقاداور شاندار پرفارمنسز پیش کی گئیں۔ یہ فیسٹول 4 سے 6 مارچ تک بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد کیا جارہا ہے۔
فیسٹول کے دوسرے روز کا آغاز خواتین کے پاکستانی معاشرے اور سیاست میں کردار اور معاشرے میں فن کے بدلتے ہوئے کردار پر گفتگو سے ہوا۔نشست بعنوان پاکستانی سیاست اور سماج:خواتین کا کردار کے پینلسٹ نے پاکستان کی پوری تاریخ میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پدرانہ پابندیوں، قبائلی رسم و رواج اور رجعتی روایات نے بہت سوں کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔
دریں اثنا معروف مجسمہ سازوں اور مصنفین، آرٹ نمائش کے منتطمین اور تخلیقی و تکنیکی ماہرین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ٹیکنالوجی کس طرح عصری آرٹ کو از سر نو تشکیل دے رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر گہرائی سے گفتگو کی کہ کیسے سوشل میڈیا میں ہونے والی پیشرفت آرٹ تک رسائی اور اس کے اثرات میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے اور امید ظاہر کی کہ کیسے منفرد ڈیجیٹل اثاثہ (این ایف ٹیز) کی ترقی دنیا بھر کے فنکاروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
سب سے زیادہ تفریح سے بھر پور سیشن انگریزی زبان کے ممتاز مصنف حنیف قریشی کی گفتگو تھی۔ جب ان سے ادب میں اخلاقی پالیسیوں کے بڑھتے ہوئے رجحانا ت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کتابوں پر پابندی کے حوالے سے کچھ نیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک لکھی گئی سب سے دلچسپ کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے معاشرے میں کتابوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ قریشی نے مذاقاً کہا کہ وہ کبھی اپنی کتابوں کو جلانا دینے کومشہوری حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ادب زندہ رہتا ہے اور کتابیں پابندی کے باوجود اپنی روشنی پھیلاتی ہیں۔
شاعر انعام ندیم اور معروف صحافی غازی صلاح الدین کی طرف سے منعقد کئے گئے سیشن میں ترجمہ کی اہمیت پر گفتگو کی گئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترجمہ کے بغیر ادب زندہ نہیں رہ سکتا۔ ترجمہ کی عدم موجودگی میں خوبصورت تحریری صرف مصنف کے جائے پیدائش تک ہی محدود رہ جائے گی اور باقی دنیا اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکے گی۔
دوسیشنز ایسے تھے جن کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا گیا بلکہ اس میں لوگوں نے بھرپور شرکت بھی کی ان میں ندیم فاروق پراچہ کی تحریر کردہ کتاب The Reluctant Republic Ethos and Mythos of Pakstan کی رونمائی اور مقامی حکومتوں کی خود مختاری: جمہوریت کی مضبوطی کیلئے لازم پر پینل سیشن شامل ہے جس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر،صحافی مظہر عباس اور معروف وکیل صلاح الدین نے شرکت کی۔
اپنی کتاب کا مرکزی خاکہ پیش کرتے ہوئے مصنف ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ پاکستانی بجائے اس کے کہ پاکستانی ہونے کا کیا مطلب ہو، اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا کیا مطلب ہے یا ہونا چاہیے۔ پراچہ نے واضح کیا کہ ہم پاکستانی ثقافت کی بجائے اس پر بحث کرنے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں کہ کیا اسلامی ہے یا کیا اسلامی نہیں ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے بارے میں رائج بیانیے پر تنقیدی انداز میں سوچیں اور پاکستانیت کیا ہے پر اپنا نظریہ تلاش کریں۔
مقامی حکومت پر منعقدہ سیشن میں اقتدار کی منتقلی کی اہمیت کا احاطہ کیا گیاکیونکہ جمہوریت کی مضبوطی اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی سے وابستہ ہے ۔ اسد عمر نے واضح کیاکہ کس طرح آمروں نے مقامی حکومت کو بہت زیادہ اہمیت دی کیونکہ مقامی حکومت نے ان کے اقتدار کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اس غلط استعمال کے باوجود یہ ایک طاقتور تصور ہے جو گورننس کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ وکیل صلاح الدین احمد نے ماتحتی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سازی کے اختیارات اور احتساب کو نچلی سطح پر منتقلی سے عوام کے تحفظات کے فوری حل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
فیسٹول کے دوسرے روز کا اختتام مشاعرہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی، کھیل کھیل میں کے موضوع پر پاکستانی فلم کی سکرینگ کے ساتھ ہوا۔