اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے اسٹیل سیکٹر میں ساڑھے 5 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی سہولت فراہم کرنے والے قوانین میں واضح تضادات کا پتا لگایا ہے اور چوروں سے وصولی کے طریقے تجویز کیے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق محتسب نے اپنے نتائج میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو سفارش کی کہ وہ آزاد اور موثر بازیابی کی کارروائی کےلئے اسٹیل کیسز کے دائرہ اختیار کو کارپوریٹ ٹیکس آفس (سی ٹی او) لاہور سے لے کر لارج ٹیکس پیئرز آفس (ایل ٹی او) یا ریجنل ٹیکس آفس (آر ٹی او) لاہور کو دوبارہ دے۔محتسب کے مطابق اسی طرح کسی بھی افسر/عہدیدار کا ماضی میں کوئی تعلق ہو تو اسے اسٹیل کے پگھلانے والے کیسز سے منسلک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان کیسوں کا نیا دائرہ اختیار تفویض کرنا چاہیے۔ایف ٹی او کے قانونی مشیر الماس علی جووندہ نے کہا کہ اس کے تفتیشی شعبے، ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو سروس کے ذریعے ترجیحی بنیادوں پر ہونے والے نقصان کی وصولی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریکوری لاہور کےاسٹیل سیکٹر کی بنیاد پر ہونی چاہیے، خاص طور پر استثنیٰ سرٹیفکیٹس کے تمام کیسز کی تحقیقات پر توجہ دی جائے۔محتسب کی رپورٹ کی نقل نے ایف بی آر کو 4 جون 2014 کو متعارف کرائے گئے سیلز ٹیکس اسپیشل پروسیجر رول 2007 کے رول ایچ58 کے رول 3(اے) کے غلط استعمال کے ذریعے چوری شدہ سرکاری ریونیو کی وصولیوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک قابل عمل اور حتمی طریقہ تجویز کیا۔خیال رہے کہ اسٹیل کے شعبے کی سہولت کے لیے 2007 میں خصوصی طریقہ کار کے قوانین متعارف کرائے گئے تھے،ان قوانین کے مطابق بجلی کے واحد میٹرز کے حامل اسٹیل کے پگھلنے والے/ری رولرز/کمپوزٹ آف میلٹرز اور ری رولرز سے سیلز ٹیکس کی وصولی سیلز ٹیکس اسپیشل پروسیجر رول، 2007 کے رول ایچ 58 کے تحت مخصوص شرحوں پر وصول کی جاتی تھی۔عائد کردہ سیلز ٹیکس بجلی کے استعمال کی بنیاد پر ماہانہ بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیا جاتا تھا، تاہم اس کے بعد سال 2014 میں رول ایچ 58 کے تحت ذیلی اصول (3اے) داخل کیا گیا جو 4 جون، 2014 سے نافذ العمل تھا،اس ترمیم کے بعد انکم ٹیکس کے کمشنروں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ درآمدی مرحلے پر سیلز ٹیکس کی وصولی کے بدلے ضروری ایڈجسٹمنٹ کے بعد اسٹیل میلٹرز اور ری رولرز سے براہ راست سیلز ٹیکس وصول کریں اور اس سلسلے میں ایڈجسٹمنٹ/ اخراج کا سرٹیفکیٹ جاری کریں،ان تضادات کی نشاندہی پہلے ڈائریکٹر جنرل ایکسٹرنل آڈٹ نے کی، پھر پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی اور پھر ایف ٹی او سیکرٹریٹ نے کی، استثنیٰ سرٹیفکیٹ کا اجرا ایک واضح خلاف ورزی تھی جس سے محصولات میں نقصان ہوتا ہے۔