کراچی میں مردم شماری میں شریک ایک رضاکار خاتون نے اس نمائندے کوبتایاکہ اس کی تقرری ڈیفنس کراچی میں شمار کے لئے کی گئی تھی اور اسے اور اس کے ایک ساتھی مرد کو کم از کم 2 ہزار بنگلوز میں رہنے والوں کی تفصیلات حاصل کرنا تھی مگر ہم نے بمشکل 7 بنگلوز میں شماری کی اکثر بنگلوز میں رہنے والوں نے دروازہ ہی نہیں کھولا جبکہ کئی بنگلوز کے رہنے والوں نے انہیں حقارت سے دھتکار دیا اور سرکار کی جانب سے کسی قسم کا تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے ہم ان کے رویہ پر صرف ہلکا پھلکا احتجاج ہی کرسکے اس خاتون نے جو وضع قطع بھی کسی مفلوک الحال گھرانے سے لگ رہی تھیں اور کچھ خوف زدہ بھی تھیں اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ کچھ ماہ قبل پولیو مخالف مہم کے دوران بھی اس نے اس علاقہ میں قطرے پلائے تھے مگر اس وقت حکومت کی طرف سے ہمیں مکمل تحفظ حاصل تھا اور دو یاتین پولیس والے ہماری حفاظت کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے تھے اور کسی بھی بدتہذیبی پر فورن علاقہ پولیس کی مزید کمک آجاتی تھی جس کی وجہ سے مہم اس علاقہ میں بھی کامیاب رہی رضاکار خاتون نے اپنے گزشتہ چند روز کی مزید تفصیلات بتاتے ہوے کہاکہ اس نے اکثر محسوس کیاکہ ڈیفنس کے اکثر رہائشی عدم تحفظ کابھی شکار ہیں رعونت کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہونے کی بنا پراکثر رہائشیوں نے خوفناک کتے پالے ہوے ہیں جو گھنٹی بجانے سے قبل مرکزی دروازے کی طرف بڑھتے ہوے ہی بھونکنا شروع کردیتے ہیں ان کی دل دہلادینے والی چنگھاڑیں سن کر دل کن پٹیوں میں دھڑکنے لگتاہے جبکہ ایک بنگلے کے بڈھے رہائشی نے تو میرے ساتھی لڑکے کے شماری کے لئے اصرار پر اس پر کتا چھوڑ دیا وہ اگر بھاگ کر دوسرے بنگلے کی دیوار پر نہ چڑھ جاتا تو وہ خونخوار کتا اسے بری طرح گھائل کردیتا اس کے بعد ہم اور بھی محتاط ہوگئے اردو بولنے والے اورنگی 11 کے رہائشی عبد الصمد کی فراہم کردہ معلومات نے تو میرے چودہ طبق روشن کردئے اس کاکہنا ہے کہ ہماری ہزاروں کی آبادی کے لئے ایک بوڑھی ماسی سکینہ اور ایک نوجواں لڑکی فرحت کوتعینات کیاگیا تھا بورھی تو ویسے ہی کوئی ان پڑھ ماسی لگ رہی تھی مگر نوجواں لڑکی بھی اس حد تک ناخواندہ تھی کہ اس نے ہاتھ میں پکڑی کاپی اور بال پوائینٹ میری جانب بڑھاتے ہوے کہاکہ اپنے گھر والوں کی تفصیلات لکھ دو ایسا کہتے ہوے وہ خاصی نادم لگ رہی تھی میرے پوچھنے پر وہ اپنے متعلق کچھ بتانے کی بجائے اصرار کرتی رہی کہ میں کاپی میں کچھ نہ کچھ لکھ دوں میں نے جب اس کاپی کوکھنگالاتو پتہ جلا کہ اس نے اکثر گھر شماری کے آگے کہیں 7 کہیں 8 کہیں 10 لکھا ہوا تھا میں نے بھی اپنے گھر کے افراد کی گنتی لکھ دی نہ اس نے ان شمار کنندگان کے شناختی کارڈ نمبر مانگے نہ ہی دیگر تفصیلات، وہ اس پر ہی قناعت کرتے ہوے تشکر آمیز انداز میں مجھے دیکھتے ہوے پڑوسیوں کے گھر گھس گئی اس طرح ہزاروں کی آبادی میں چند سو کی شماری کی گئی نارتھ ناظم آباد کے ایک رضاکار اسلم نے بتایاکہ ان کے بہت سے ساتھی چند گھروں کی شماری کے بعد آرام کرنے گھر چلے جاتے ہیں یا تفریح کرتے رہتے ہیں اور شام کو وہ جو بھی ادھوری معلومات اپنے متعلقہ دفاتر میں جمع کرواتے ہیں ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی نہ ہی دن میں ان کی نگرانی کا کوئی نظام ہےاس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کراچی میں کس حد تک غیر سنجیدہ مردم شماری کروائی جارہی ہے اگر کوئی نیوزچینل یااخبار اس سلسلہ میں مردم شماری کے لئے تعینات عملے اور ان کی سرگرمیوں پر تھوڑی سی بھی چھان پھٹک کرلے تو عین ممکن ہے کہ مصنوعی مردم شماری کے پس پردہ ناپاک عزائم کو طشت از بام کیاجاسکے اور اس طرح ایک بڑے محب وطن طبقے کو ناراض کرنے کی یہ سازش بروقت ناکام بنائی جاسکے مردم شماری کا کراچی میں قائم محکمہ ان تمام الزامات سے انکاری ہے مگر شہر کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جہاں جعلی مردم شماری میں سندھ کی حکمراں جماعت علیحدگی پسند اور پیر، فقیر، وڈیرے اور نوکرشاہی ملوث ہیں وہیں کچھ بین الاقوامی وہ قوتیں جو پاکستان میں صاحبان اقتدار سے زیادہ طاقت ور رہی ہیں اور ہمیشہ منفی فیصلوں کے پیچھے وہ نکلتے ہیں شاید ان کا بھی کوئی نہ کوئی کردار ہو کیونکہ ایک تو مسلسل ایسی زیادتی کی وجہ سے کراچی کے رہائشی مہاجروں کی نئی نسل (جسے عرف عام میں ناراض نسل کہاجاتاہے) حب الوطنی سے لاتعلق ہورہے ہیں اور ملک دشمن قوتیں اس آگ کو شعلوں میں بدلنے میں کوشاں ہیں دوسرا یہ کہ کراچی ملک کا معاشی حب ہے اس شہ رگ کو کمزور کرکے وہ ملک کو دیوالیہ کرنے کے مکروہ عزائم کی تکمیل شاید جلد چاہتے ہوں گے بہر صورت ہیں عواقب کچھ نظر آتے ہیں کچھ اس کا ازالہ حب الوطنی کا متلازم تقاضہ ہے-