1992 میں جب میں کراچی آیا تھا تو اُس وقت مزدا بس کا فی اسٹاپ کرایہ ڈیڑھ روپیہ ہوا کرتا تھا ۔
کراچی کی مزدا بسوں جیسا مثالی ٹرانسپورٹ سسٹم پاکستان بھر میں کہیں نہیں تھا ۔ کراچی میں جاری آگ اور خون کا کھیل اگلی دو دہائیوں میں اس جناتی ٹرانسپورٹ سسٹم کو نگل گیا ۔ ہر ہڑتال پر دس بارہ بسوں کو جلانا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا ۔
سب سے بڑا بسوں کا بیڑہ W11 نمبر کا تھا ۔ شاید پانچ سو سے زائد بسیں اس ایک نمبر ( رُوٹ ) پر چلتی تھیں ۔
1999 میں بائیک خریدی تو مزدا بسوں میں سفر اپنے انجام کو پہنچا ۔
گو اب بھی اِکا دُکا روٹس پر یہ بسیں چل رہی ہیں لیکن بہرحال وہ رونق تو کیا ہو گی ، اُس کا شاید پانچ فیصد بھی باقی نہیں ۔
وہ بیسویں صدی کی بات ہے ۔
اب کراچی ترقی کر کے اکیسویں صدی میں پہنچ چکا ہے جہاں جنگچی ، بائیکیا ، اوبر وغیرہ کا راج ہے ۔
یعنی پبلک ٹرانسپورٹ کراچی میں اس وقت پاکستان کے قیام کے وقت والی حالت کے مقابل بھی پسماندہ ترین ہے کہ جب یہاں ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام چلا کرتی تھی ۔
خیر تمہید کا مقصد کچھ اور تھا ۔
کراچی کی مزدا بسوں کی اپنی ہی ایک دُنیا تھی ۔
خیالات در خیالات آ رہے ہیں لیکن کوشش ہے کہ گفتگو کو لگام لگ جائے ۔
مزدا بس کے اندر کا ماحول آج کی فیس بُک جیسا ہی تھا ۔
مارشل لا کے سناٹے کے بعد جمہوری سیاست کی گہما گہمی تھی ۔
مسافروں کی اکثریت آپس میں اجنبی ہوا کرتی تھی ۔
ڈرائیور کی سائیڈ پر تقریبا نو عدد سیٹیں ( جیسی تیسی ) خواتین کے لیے ہوتی تھیں اور پھر لوہے کا جنگلا اور عقبی سمت تین گنا سیٹوں پر حضرات ہوا کرتے تھے ۔
تو ذکر ہو رہا تھا مزدا بس کی فیس بُک کا ۔۔۔۔۔
کوئی ایک صاحب مہنگائی کا ذکر چھیڑتے ، یہ سمجھ لیں کہ یہ پہلی پوسٹ ہوا کرتی تھی ۔ جواب میں پہلو میں بیٹھے صاحب کا منفی یا مثبت کمنٹ آتا ۔ اتنے میں اگلی قطار میں بیٹھے کسی افلاطون کی دانش جاگتی کہ جیسی عوام ویسے حکمران وغیرہ ۔۔۔۔۔
جواباً کسی دوسری قطار سے پوسٹ آتی کہ اصل میں ہم سب بے غیرت ہیں ۔ کچھ سر اعتراف میں ہلتے لیکن کوئی صاحب احتجاجاً اپنے ادا کیے گئے ٹیکس دلیل میں لے آتے ۔۔۔۔
کسی کا اسٹاپ آ جاتا تو گفتگو میں کچھ دیر خلل آتا لیکن یہ تعطل چند لمحات پر ہی مشتمل ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔
مجھے اپنا ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے ۔
شاید لیاقت لائبریری جا رہا تھا ۔ بس کا نمبر یاد نہیں ۔ شاید 22B تھی ۔ میرے پہلو میں بیٹھے صاحب دوپہر کے اخبار عوام میں چھپنے والی ایک سُرخی پر خوش ہو رہے تھے ۔ خبر تھی کہ ” رشوت لینے کے جُرم میں ایس ایچ او گرفتار ” میں اپنے کسی معاملے میں گم سم بیٹھا تھا سو دھیان نہیں دے پایا ۔ انہوں نے دوبارہ خبر پڑھ کر میری طرف دیکھا ۔ میں نے اُن کی گود میں بچھے اخبار پر خبر پڑھی اور انتہائی سنجیدگی سے عرض کی کہ ” خبریں اُلٹی پڑھا کیجیے ”
انہوں مطلب پوچھا تو بتایا کہ ” بیچارہ ایس ایچ او یا تو رشوت نہیں لے رہا ہو گا یا پھر تبادلے والی رشوت ادا نہیں کر رہا ہو گا ، ایسے رشوت پر گرفتاریاں شروع ہو جائیں تو ہم پولیس کے محکمے سے ہی محروم ہو جائیں گے ”
اتنے میں میرا اسٹاپ آ گیا اور وہ صاحب دفاعی پوسٹ داغنے سے محرومی پر تلملاتے رہ گئے ۔
نیوز فیڈ دیکھتا ہوں تو مزدا بسیں یاد آ جاتی ہیں ۔
یہ غلط ہو رہا ہے ۔
وہ ٹھیک ہو رہا ۔
یہ نہیں ہونا چاہیے ۔
وہ ہونا چاہیے ۔
جیسے مزدا بسوں کے مسافروں کی آواز کہیں نہیں جاتی تھی ویسے ہی ہمارے تجزیے ، تبصرے ، تنقید اور فلسفے اگلے دن پُرانے ہو چکے ہوتے ہیں ۔
آج ایک پوسٹ پر دیکھا چند انتہائی تعلیم یافتہ مطلب واقعی انتہائی تعلیم یافتہ احباب پاکستان کے لیے مستقبل کا نظامِ تعلیم طے کر رہے تھے تو مزدا بسیں یاد آ گئیں ۔
چند دن بعد یہ مفکر پاکستان کی خارجہ یا داخلہ پالیسی بھی طے کر سکتے ہیں ۔
یہ کوئی طنزیہ تحریر نہیں ، اگر ہے تو میں بھی اسی بس کا مسافر ہوں ۔
البتہ آج یہ ضرور سمجھ چکا ہوں کہ باتیں ہوا میں اُڑ جاتی ہیں ۔ خواہشات دفن ہو جاتی ہیں ۔
کسی چیز سے اگر فرق پڑتا ہے تو وہ محض ” عمل کا بیج ” ہے کہ میں نے آج کیا کیا ؟ کم یا زیادہ یا کم از کم یہ احساس کہ “” آج میں انفرادی یا اجتماعی زندگی کے لیے کوئی بھی مثبت عمل نہیں کر پایا “”