لاہور(نمائندہ خصوصی) اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے قرض کی ری اسٹرکچرنگ انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ اکثر بیرونی قرضوں کے لیے بتایا گیا عمل ری اسٹرکچر کے لیے بہت مشکل ہے،تمام خطرات کی وجہ سے عمل مشکل ہوگا کیونکہ قرض کی قسم پاکستان کی بیلنس شیٹ پر حاوی ہیں۔قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے حوالے سے ان کا بیان ایک پوڈ کاسٹ کے دوران ان کے تبصرے سے اخذ کیا گیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اکثر ممالک کا قرض سرکاری قرض کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد کے پاس یہ رقم یا تو عالمی مالیاتی ادارہ اور عالمی بینک کی طرح کثیرالجہتی شراکت دار یا حکومتوں اور اداروں کی طرز پر دو طرفہ قرض دہندگان کے لیے ہے۔پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7 برسوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جس میں 2014-15میں جی ڈی پی کا 24 فیصد 65 ارب ڈالر سے 2921-22میں جی ڈی پی کا 40 فیصد 130 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا،اگر پاکستان ری اسٹرکچرنگ کے لیے جاتا ہے تو پھر بھی قرض میں کمی بہت مشکل ہوجائے گی۔انہوںنے پاکستان کی مدد کرنے پر چین کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے لیے چین کسی بھی بڑے دوطرفہ قرض دہندہ ملک کی طرح ہے۔ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ قرض کی موثر کمی بہت مشکل ہے اگر اندرونی قرض بھی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ بنادیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ پھر مالی شعبے کے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔