کراچی (نمائندہ خصوصی)گزشتہ ماہ(مارچ) میں افراط زر کی شرح35.4فی صد کی بلند ترین سطح پر آ گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری 2023 میں افراط زر کی شرح31.5فی صد کی بلند ترین سطح پر تھی جس کے بعد اگلے ہی مہینے (مارچ میں)اس میں مزید اضافہ ہوکر35.4فی صد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں افراط زر کی شرح12.7فی صد تھی۔رواں ہفتے بھی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں روپیہ مزید کمزور ہوگیا۔ ہفتہ وار کرنسی رپورٹ کے مطابق بیرونی ادائیگیوں کے دبا سے اتارچڑھا کے باعث ڈالر کی پیش قدمی جاری رہی اور معیشت کی غیر واضح سمت، سیاسی انتشار کی و وجہ سے پانڈ اور یوروکی اڑان میں زیادہ تیزی رہی۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق رواں ہفتے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 287روپے کی سطح پر آگیا جب کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 60پیسے بڑھ کر 283.79روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1روپے بڑھ کر 287 روپے پر بند ہوئی۔اسی طرح برطانوی پانڈ کے انٹربینک ریٹ 4.01روپے بڑھ کر 351.66روپے ہوگئے اور اوپن مارکیٹ میں 5روپے بڑھ کر 353روپے ہوگئے۔ انٹربینک میں یورو کرنسی کی قدر 4.38روپے بڑھ کر 309.38روپے اور اوپن مارکیٹ میں یورو کی قدر 6روپے بڑھ کر 311روپے ہوگئی۔رواں ہفتے بھی امپورٹ ایل سیز کھلوانے کی مشکلات برقرار رہیں۔ نادہندگی کے منڈلاتے ہوئے خطرات سے روپے پر دبا بڑھتا رہا جب کہ سعودی عرب ودیگر دوست ممالک سے فنانسنگ گارنٹی ملنے کی امید سے ڈالر کی غیر معمولی پیش قدمی محدود رہی۔رواں کاروباری ہفتے میں سعودی عرب فنانسنگ کے گرین سگنلز کے باعث اسٹاک مارکیٹ میں محدود تیزی رہی، تاہم سیاسی دنگل، آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ اتارچڑھا کا شکار رہی۔رواں ہفتے شرح سود مزید 2 فیصد بڑھنےکے خدشات سے سرمایہ کار محتاط رہے۔ آئل، گیس، او ایم سیز بینکنگ ودیگر شعبے فروخت کی زد میں رہے۔ تیزی سے انڈیکس کی 0000پوائنٹس کی نفسیاتی حد بحال ہوگئی۔ ہفتے کے 2 سیشنز میں مندی اور تین سیشنز میں تیزی رہی۔مارکیٹ میں تیزی سے حصص کی مالیت 61کروڑ 62لاکھ 12ہزار 51روپے بڑھ گئی اور مجموعی سرمایہ بھی بڑھ کر 61کھرب 8ارب 16 کروڑ 99لاکھ 41ہزار 180 روپے ہوگیا۔ 100انڈیکس 58.78 پوائنٹس بڑھ کر 40000.83 پر بند ہوا جب کہ 30انڈیکس 114.29 پوائنٹس بڑھ کر 14852.81 پر بند ہوا۔اسٹاک مارکیٹ میں کے ایم آئی 30انڈیکس 560.16پوائنٹس بڑھ کر 69337.93 پر بند ہوا۔ ڈالر بحران برقرار رہنے سے شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کا رحجان رہا جب کہ افراط زر کے بلند سطح پر پہنچنے سے طویل المدت سرمایہ کاری سے گریز کیا گیا۔ مارکیٹ میں ڈے ٹریڈنگ کا رحجان تسلسل سے برقرار رہا۔ انسٹیٹیوشنز سمیت ہر شعبے نے تیزی آتے ہی پرافٹ ٹیکنگ کو ترجیح دی۔ سکڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں، امپورٹ پر پابندی سے مارکیٹ میں سرگرمیاں محدود رہیں۔