کراچی (نمائندہ خصوصی ) صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ کراچی میں سائٹ ایریا میں فیکٹری مالکان کی جانب سے زکواۃ تقسیم کے دوران افسوسناک واقعے پر بہت دکھ ہے۔ نجی کمپنی زکوات تقسیم کررہی تھی، جس کی انہوں نے کسی کو اطلاع نہیں دی تھی جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ کمپنی والوں کی نیت درست نہیں تھی لیکن ان کا طریقہ درست نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ کارخیر کرنے والے منظم اور منضبط طریقے سے امداد تقسیم کے اقدامات کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس نے اس واقعے کی ایف آئی آر کاٹی ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لئے 5، 5 لاکھ اور زخمی ہونے والوں کے لئے ایک , ایک لاکھ امداد کا اعلان کیا ہے ۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ یہ امداد کسی جان کا مداوا نہیں لیکن پریشان حال خاندانوں کی مدد کے لئے ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پورے پاکستان میں مفت آٹے کی تقسیم کی صورتحال کو دیکھ کر سندھ میں آٹے کی تقسیم کے بجائے نقد رقوم بی آئی ایس پی کے تعاون سے مستحقین تک پہنچانے کے لئے مربوط حکمت عملی بنائی ہے جس کے تحت مستحق خاندانوں کو سبسڈائزڈ آٹے کی خریداری کے لئے 2 ہزار روپے فی خاندان کے حساب سے 78 لاکھ خاندانوں کو دیئے جائیں گے اور اس سلسلے میں 30 مارچ تک 38 لاکھ 24 ہزار ایک سو پینتالیس مستحقین کو موبائل فون پر میسج بھیجے جاچکے ہیں۔ جن میں سے 10 لاکھ سے زائد افراد اب تک 2 ارب,14 کروڑ ,25 لاکھ 64 ہزار روپے کیش کراچکے ہیں۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ حکومت کی سوچ یہ ہے کہ لوگوں کو سڑک پر کھڑا کرنے کے بجائے باعزت طریقے سے مدد پہنچائی جائے۔انہوں نے بتایا کہ ماہ رمضان میں ساڑھے 15 ارب روپے کی سبسڈی دے دی جائے گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ مستحق ہے تو قریبی بی آئی ایس پی مرکز سے رجوع کرے، انہیں 24 گھنٹوں میں رجسٹرڈ کردیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس مد اگر سندھ حکومت کو مزید 5 ارب روپے خرچ کرنے پڑے تو کرے گی ۔ شرجیل انعام میمن نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں آئین و قانون کی اتنی بے توقیری کبھی نہیں ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے، پچھلے مہینے لاہور میں پولیس پر تشدد کیا گیا ۔پولیس پر پیٹرول بم پھینکے گئے۔ پولیس والوں کو زخمی کیا گیا لیکن جو لوگ اس الزام میں گرفتار کئے گئے ان کی ضمانت ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والے سیکیورٹی پر مامور ہوتے ہیں لیکن پولیس والوں پر تشدد پر کوئی سوموٹو نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر شخص ڈھٹائی ،دھونس، دھاندلی اور لاقانونیت پر اتر آئے اور خود ہی یہ فیصلہ کرلے کہ میں نے گرفتاری دینی ہے یانہیں تو پھر اس طرح تو یہ معاشرہ انارکی اور ڈنڈے اور غنڈہ گردی کا معاشرہ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا یاسمین راشد اور عارف علوی نے اپنی آڈیو کی تردید کی۔لیکن قانون خاموش ہے اور اس ملک میں قانون کا تماشا بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ کی ججمنٹ تھی کہ بی ار ٹی پشاور کا کیس نیب میں چلے لیکن اس کیس پر اج تک اسٹے آرڈر لیا جارہا ہے اور انہیں اسٹے مل بھی رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چیلنج دیتا ہوں کہ عمران خان کی پارٹی کا ایک شخص ایسا نہیں جو اس اسٹے آرڈر کا دفاع کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا کب تک چلے گا اور ایک پولیٹیکل پارٹی کو لاقانونیت کی کب تک اجازت دی جاتی رہے گی اور کب تک ایک ملک میں دو نظام چلتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج صادق اور امین بنانے والا کہاں ہے ؟
انہوں نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے ریفرنس کو کیوں نہیں وقت دیا اور سناجاتا اور شہید بی بی کے مقدمے کے لئے غیر معینہ مدت کی تاریخ کیوں دی گئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی لیکن پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے تکلیفیں جھیلیں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے ، عوام کو اس میں دلچسپی نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے اور عدالتیں کیا کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کے سیلاب متاثرین کو گھر بناکر دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے علاوہ سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کو فصل لگانے کے لئے امداد دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں علاج بہت بڑا مسئلہ ہے، سندھ حکومت عوام کو علاج کی بالکل مفت اور شاندار علاج کی سہولیات میسر ہیں جن میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں ریمارکس نہیں، ہمیں کسی اختلاف نہیں، عدالتوں کے فیصلے بولنے چاہئیں تاکہ یہ فیصلے دوسروں کے لیے مثال بننے چاہیے اور سب کے لیے ایک قانون ہو ۔قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوگا تو ملک چل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنی ہے، اس ملک کی معیشت کی حفاظت کرنی ہے اور آئین کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے