اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی)قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اورسپریم کورٹ (کارروائی، قواعد و ضوابط) بل بھاری اکثریت سے منظور کرلئے جبکہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل پربدھ کو بھی جاری رہا جس دور ان حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم صاحب! آگر آئین توڑا گیا تو آپ کو کیس فائل کرنا چاہیے ،جب ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیا تو اسی وقت غیرجمہوری قوتوں نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کیا تھا، ہائبرڈ جنگ جمہوریت، سیاسی اتفاق رائے، میثاق جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف خلاف تھی، ایک کرکٹر کو ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاست میں لے کر آئی ،ہمارے اداروں میں کچھ آئن سٹائن بیٹھتے ہیں اور ملک کے فیصلے کرتے ہیں، اسٹریٹجک اثاثے بناتے ہیں اور پھر آخر میں یہ ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں،پارلیمان بالادست اور آئین کا خالق ہے، سوموٹو نوٹس کے حوالہ سے پارلیمان کی حالیہ قانون سازی بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی، اس قانون کے تحت سپریم کورٹ سے ہی مزید دو سینئر جج سوموٹو نوٹس لینے کیلئے شامل کئے جا رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم ہو رہے ہیں، دو منتخب وزراءاعظم کو نااہل قرار دیا گیا، منتخب وزیراعظم کو سسلین مافیا کہا گیا، وہ اس پر کہاں اپیل کرتے، ہمیں اس قانون سازی پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جبکہ اجلاس کے دور ان چند آزاد اراکین کی جانب سے عدلیہ پر قدغن قرار دیا گیا ۔ بدھ کووزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جبکیہ کمیٹی کی رپورٹ چئیرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے پیش کی۔بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا جس کے بعد بل پر بحث آغاز ہوا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جو قانون سازی ہورہی ہے اس کو ہر ایک کی حمایت حاصل ہے،معروف وکیل حامد خان نے برملا اس بل کی حمایت کی ہے اور کہا کہ یہ بہت پہلے آنا چاہئے تھا،عدلیہ بحالی کی تحریک کے وقت پی پی کی حکومت تھی،حکومت کی اپوزیشن اور وکلا سے بات چیت ہوئی،اس میں عدلیہ بھی تھی اس میں یہی قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی بار اس کے حق میں تھی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوسکی،سوموٹو اختیار میں دو مزید جج شامل کئے جارہے ہیں،باہر سے کوئی پارلیمان کے ارکان اس میں شامل نہیں کئے جارہے، سپریم کورٹ سے ایک جج سے تعداد بڑھا کر تین کئے جارہے ہیں،اس کی وضاحت کی ضرورت ہے،کچھ لوگ اس کے حوالے سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے اختیارات کم کررہے ہیں،یہ ایوان قانون سازی کا اپنا حق استعمال کررہا ہے،جو اس کا آئینی حق ہے،ہم اس سارے عمل کو شفاف بنارہے ہیں،آج جو ابہام فیصلے کے حوالے سے پیدا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کا ازخود کیس کا فیصلہ چار تین کا تھا یا تین دو،آج کی سماعت میں بھی یہ بات اٹھائی گئی۔اس ماحول میں اگر آئینی طور پر بااختیار ایوان سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے ، یہ ایوان سپریم ہے اور آئین کا خالق ہے ، دوسرے تمام ادارے اس کی ایک قسم کی توسیع ہیں۔یوسف رضا گیلانی کو جس طرح نااہل کیا گیا کیا اس قانون پر نظر ثانی نہیں کی جانی چاہئے؟ آرٹیکل 209 پر بھی نظر ثانی ہونی چاہئے، ایک وزیر اعظم کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ، نواز شریف کے لئے سسلین مافیا کا نام دیا گیا، کیا نواز شریف کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپیل دائر کر سکتا، تمام ماتحت عدالتوں کو شامل کرکے نواز شریف کو یہ سزا سنائی گئی، کیا یہ انصاف ہے کہ اس ایوان کے دو وزراءاعظم کو نااہل کیا گیا، ہمیں کون لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں، ہمیں آئین، قانون اور عوام کا مینڈیٹ یہ حق دیتا ہے، کسی اور ادارے کے پاس پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ نہیں صرف اس ایوان کے ارکان کے پاس یہ مینڈیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے 50 سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، آج بھی یہ بات درست اور سچ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ پاکستان کے عوام ہیں اور پاکستانی عوام کی خواہشات کا مرکز یہ ایوان ہے، ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم نے قانون سازی کے حوالہ سے تمام لوازمات پورے کئے ہیں، ہم جو قوانین بناتے ہیں ان کی پڑتال کرنے کا حق عدلیہ کا ہے، ان کے فیصلے قانون کا حق بن سکتے ہیں، قانون و آئین ہمیں جو حق دیتا ہے اس کو ہمیں استعمال کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ قانون سازی اپنا حق استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، ہم یہ اختیار عدلیہ میں ہی دو ججوں کو دے رہے ہیں، ہم اپیل کا حق دے رہے ہیں، ہمیں جمہوریت، آئین اور قانون کا درس دیا جاتا ہے تو اس ادارے کے رولز میں بھی جمہوریت کے اثرات ہونے چاہئیں، اس قانون سازی میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہے، یہ قانون بہت پہلے منظور ہو جانا چاہئے تھا، ماضی میں اس ایوان کے منتخب وزراءاعظم کے ساتھ جو ہوا اس پر بھی قانون سازی ہونی چاہئے، ہر ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حدود کا تحفظ کرے۔وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ گزشتہ روز اس ایوان میں ایک بل پیش کیا گیا اور ایوان کا خیال تھا کہ یہ بل عوام دوست ہے جس سے پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں عوام کو سپریم کورٹ میں قانونی کارروائی کے حوالے سے کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد کا مطالبہ بارکونسلز کا مطالبہ بھی ہے اور اسی لیے بارز کے عہدیداران اور ارکان بلاامتیاز اس بل کی حمایت کی، بل کمیٹی کو سونپ دیا گیا تھا۔وزیرقانون نے کہا کہ کمیٹی نے اس بل پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے بعد بل کو واضح کردیا اور کچھ ترامیم تجویز کی گئیں اور اس دوران قائمہ کمیٹی قانون اور انصاف نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جبکہ اعظم نذیر تارڈ نے بل کے حوالے سے قرارداد کی منظوری دی گئی۔جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا تاہم یہ بل گزشتہ رات کو پیش کیا گیا پھر کمیٹی میں گیا اور صبح ساڑھے 9 بجے کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے اس کی منظوری دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس بل کو ڈیڑھ بجے قومی اسمبلی سے منظور کروایا جارہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی، کیا اس پر مزید لوگوں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جاتی، اٹارنی جنرل، سابق چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی تو بہتر نتیجہ نکل آتا۔انہوںنے کہاکہ اس سے بھی شدید مسائل اس وقت موجود ہیں، لوگ مفت آٹا حاصل کرنے کے لیے شہید ہو رہے ہیں، ملک میں صورت حال یہ ہے کہ اس وقت رمضان المبارک میں افطاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سیلاب زدہ لوگوں کو اب تک مناسب ریلیف نہیں ملا، کم از کم خیبرپختونخوا میں میرے علاقے میں لوگوں کو ریلیف صحیح طرح نہیں ملا لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کو پاکستان کے اہم مسائل پر بھی گفتگو کرنے کے لیے ہمیں ہدایات دینی چاہیے تھی تاہم ایک مسئلے پر اور جن لوگوں سے آپ نے مشاورت کی ہے، ان کے لیے دوسرا بل لے کر آئے ہیں اور لوگ کہتےہیں رشوت کے طور پر ان کو دیا گیا ہے، یہ دوسرا بل وکلا کو رشوت کے طور پر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں یہ باتیں سنی ہیں، ہمیں اپنے اداروں کو مستحکم کرنا چاہیے، اداروں کا استحکام ہم سب کے لیے بہتر ہے، سپریم کورٹ یا عدلیہ اپنا قانون تقاضے کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتا، یہ حقیقت ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔اجلاس کے دور ان رکن اسمبلی محسن داوڑ کی ترمیم بھی منظورکرلی گئیں جس کے مطابق ماضی میں مقدمات کے فیصلوں کے خلاف ایک ماہ کی اپیل کرسکیں گے ،184 کے تحت ماضی کے فیصلوں کو بھی ایک ماہ کا وقت مل جائےگا۔بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پیش کیا اور ایوان نے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا جبکہ سپریم کورٹ (کارروائی، قواعد و ضوابط) بل بھی منظور کر لیا گیا۔بل کے مطابق تین رکنی سینئر ججز کی کمیٹی از خودنوٹس کا فیصلہ کرےگی،از خود نوٹس کےخلاف اپیل کا حق ہوگا ، 30 دن میں اپیل دائر ہوسکے گی ۔ اجلاس کے دور ان اعظم نذیر تارڑ نے وکلا کی بہبود اور سیکیورٹی کے حوالے سے ’لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل پیش کیا جسے ایوان نے منظور کر لیا۔وزیر تجارت نوید قمر نے امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس کنٹرول ایکٹ 1950 میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق سینٹ کا اجلاس (آج)جمعرات کو ہوگا جس میں مجوزہ بل منظوری کیلئے پیش کیا جائےگا۔