اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عدلیہ کے اندر سے امید کی نئی کرن سامنے آئی ہے، آج ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ قانون و آئین کی پیروی کرنی ہے یا جنگل کا قانون چلے گا، جب عدل ہوتا نظر آئے گا تو ملک سے خطرات کے بادل چھٹ جائیں گے، آئین نے عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات طے کرکے ریڈ لائن لگا دی ہے، پارلیمنٹ آئین و قانون کے تحت ساری صورتحال کو زیر بحث لا کر فیصلہ کرے، جتھوں کے ساتھ عدلیہ کو بلیک میل کرنے، آئین و قانون کو نہ ماننے والے لاڈلے کو ضمانتیں دی جا رہی ہیں، ہم اس لاڈلے کو ملک سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، آج شرافت کا مقابلہ بدمعاشی سے ہے، جمہوریت اور فسطائیت کے درمیان لڑائی ہے، یہ اجتماعی بصیرت کے ساتھ فیصلہ کرنے کا وقت ہے، قانون کو تسلیم نہ کرنے والوں سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔منگل کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سپیکرقومی اسمبلی اور پوری قوم کو آئین کی گولڈن جوبلی پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ وہ دستاویز ہے جس کی تخلیق کیلئے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر مذہبی اور سیاسی زعماء نے تمام تر اختلافات کے باوجود اور ذاتی پسند و ناپسند ترک کرکے یہ آئین بنایا جو پاکستان کی تاریخ میں ایک درخشندہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں مسلمان اور غیرمسلم دونوں بیٹھے ہیں، ملک کا مذہب اسلامی اور سیاست جمہوری ہے، اس آئین نے ہماری مذہبی روایات کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، ہمارے زعماء کو تاریخ ہمیشہ سنہری حروف سے یاد رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے تھے اور مختلف سیاسی جماعتوں نے ملک کو مشکل حالات سے نکالنے اور ریاست کو بچانے کیلئے اپنی سیاست کو دائو پر لگایا اور عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ 1971 کے سانحہ میں پوری قوم کیلئے ایک سبق تھا کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے ابھی 25 سال گزرے تھے کہ ملک دولخت ہو گیا حالانکہ کروڑوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور قربانیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے اداروں کے اختیارات میں تقسیم واضح کر دی ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے یہ یہ اختیارات ہوں گے، آئین نے ایک ریڈ لائن لگا دی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج اس آئین کا سنگین مذاق اڑایا جا رہا ہے، اسی آئین میں درج عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے نوٹسز ملنے کے باوجود پیش نہیں ہوتا اور رات کے اندھیرے میں اسے ریلیف ملتا ہے، اس نے عدلیہ کا مذاق اڑایا، خاتون جج کے حوالے سے اس کی باتوں کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو کس طرح ہمارے خلاف بددیانتی سے جھوٹے مقدمات بنائے، قوم کی ایک بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ جیل میں باپ سے ملنے آتی ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے، کیا کسی نے اس بات کا کوئی ایکشن لیا؟ اور ایک لاڈلہ جو قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال رہا ہے اس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا، یہ وہی لاڈلہ ہے کہ جس کے حواریوں نے سپریم کورٹ کے باہر گندے کپڑے لٹکائے اور قبریں کھودیں۔ انہوں نے کہا کہ اس لاڈلے کی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس کی خلاف ورزی موجودہ حکومت نے نہیں کی بلکہ اس لاڈلے نے خود خلاف ورزی کی اور ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا، ہم نے بڑی مشکل سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، اب آئی ایم ایف ہم سے ہر قدم پر ضمانتیں مانگتا ہے،وزیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے ملک کو ان حالات سے نکالنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے چار سالہ دور میں ملک کے 70 فیصد قرضے بڑھ گئے اور ایک نئی اینٹ تک نہیں لگائی گئی، انہوں نے دو کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان میں چاروں صوبوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سفید پوش طبقہ تنگ دست ضرور ہوتا ہے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا، مگر آج سفید پوش طبقہ بھی لائنوں میں لگا ہے، یہ ہے وہ تباہی جس پر عمران نیازی نے ملک کو پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الزام یہ لگایا گیا کہ یہ حکومت امریکی سازش کے تحت قائم ہوئی ہے، وہ کئی ماہ تک یہ جھوٹ قوم کے سامنے بولتا رہا، اس تواتر کے ساتھ جھوٹ بولنے کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنا شروع ہو گئے کہ واقعی امریکہ کی سازش کے تحت حکومت گرائی گئی ہے؟ مگر اب وہ خود یہ کہہ رہا ہے کہ یہ امریکی سازش نہیں تھی یہ اپنوں کی سازش تھی، اس کے اسی طرح کے ٹوپی ڈراموں نے پاکستان کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ہم امریکہ سمیت دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین سمیت دیگر برادر ممالک کے ساتھ خارجہ محاذ پر اس نے تعلقات خراب کئے۔ انہوں نے کہا کہ اب نئے لوگ تیار کرکے پاکستان کے خلاف بیانات دلوائے جا رہے ہیں، یہ ہمیں کہتا تھا کہ اپوزیشن والوں کو سفارتکاروں کے ساتھ ملنے کا کوئی حق نہیں، اب یہ خود دن رات سفارتکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں، یہ وہ حالات ہیں کہ جس کی وجہ سے قوم ورطہ حیرت میں ہے اور پوری قوم تقسیم در تقسیم ہوئی، مگر اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اللہ بزرگ و برتر پاکستان کی حفاظت فرمائے گا مگر اس لاڈلے کو ملک سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔انہوں نے کہا کہ کبھی نہیں دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پتھرائو کیا جائے پٹرول بم پھینکے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین نے پاکستان کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولرز نے لسبیلہ کے شہداء کیلئے بے سروپا باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے 80 ہزار سے زائد جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک کو دہشت گردی سے محفوظ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا، 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کا چنائو ہوا، میں نے کابینہ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس معاملہ پر پوری طرح مشاورت کی، مجھے کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو میں اپنے رفقاء کے ساتھ مشورہ کرتا ہوں، وہ وزیراعظم کا فیصلہ نہیں ہوتا کابینہ کا فیصلہ ہوتا ہے،جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بنانے کا فیصلہ مکمل طور پر میرٹ پر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سپہ سالار حافظ قرآن بھی ہیں، پی ٹی آئی کے ٹرولرز افواج پاکستان کی لیڈرشپ کیلئے بدترین اور غلیظ زبان استعمال کر رہے ہیں، اس سے دشمن خوش نہیں ہوگا تو کون خوش ہوگا، اگر اس کی اجازت دی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، اس سے پہلے کہ ہمیں دیر ہو جائے، اس ایوان کو ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف ماضی میں جعلی مقدمات بنائے گئے اور انہیں جلدی اتنی تھی کہ خواجہ آصف سمیت ہمارے ساتھی جیل جائیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور ”مرزا یار اکیلا پھرے”۔ انہوں نے کہا کہ ان دالخراش واقعات کا کسی نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کا کیس ہم نے شروع نہیں کیا، ان کے اپنے ساتھی اکبر ایس بابر نے شروع کیا، اس کی تفصیلات سٹیٹ بینک نے فراہم کیں، منی لانڈرنگ عمران نیازی نے کی، ووٹن کرکٹ کلب کا پیسہ سکولوں اور ہسپتالوں پر لگنا تھا مگر وہاں نہیں لگا اور عمران خان اور حواریوں کی جیبوں میں چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی کو بیچ دیا اور بعد میں جعلی رسید پیش کر دی، اس کیس کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی جو عدالتوں کے روبرو پیش نہیں ہوتے اور عدلیہ کا مذاق اڑاتے رہے ہیں، کی دن رات ضمانتیں ہو رہی ہیں، یہ انصاف کا نظام اور ترازو ہے؟انہوں نے کہا کہ یہ میری ذات کا معاملہ نہیں ہے یہ ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کا معاملہ ہے کہ ہم ان کیلئے ایسا نظام چھوڑیں گے۔ محمد شہباز شریف نے کہا کہ ایک آڈیو میں سپریم کورٹ کے ایک جج کے بارے میں بعض انکشافات سامنے آئے اﷲ کو معلوم ہے کہ وہ حقائق پر مبنی ہیں یا نہیں مگر سپریم کورٹ اس کا فرانزک آڈٹ کرائے، اگر یہ وڈیو جھوٹی ہے تو مرتکب افراد کو سزا دی جائے اور اگر درست ہے تو پھر قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جن کے خلاف مقدمات بنائے گئے ان کے خلاف آج تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے مگر جن کے خلاف باتیں سامنے آئیں بتایا جائے کہ کتنے ججوں کو کرپشن کے کیسوں پر نکالا گیا؟ جبکہ سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کرکے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس بنائے جاتے ہیں، آج اس ایوان کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم آنکھیں بند کرکے گائے بھینسوں کی طرح ہانکے جائیں گے یا پھر آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر کوئی اور یہ سب کچھ کرتا ہے تو اسے کالے پانیوں تک پہنچا دیا جاتا مگر اس لاڈلے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
انہوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ کس طرح عمران نیازی 2021 میں دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا اور انہیں یہاں رہنے کی پیشکش کی اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سوات اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کو بسایا اور کس طرح دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھایا، پولیس، فوج اور دیگر اداروں کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، اس سارے معاملے کی چھان بین ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد، دہشت گرد ہی ہوتا ہے کوئی گڈ آر بیڈ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیا تھا اور کیا منصوبہ بندی تھی؟ کیا اس کا مقصد ایک مرتبہ پھر الیکشن میں جھرلو چلوانا تھا؟ انہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں آر ٹی ایس بند کرکے جھرلو چلایا گیا اور ایک لاڈلے کو جتوا کر پذیرائی کی گئی، اس کے بعد چور اور ڈاکو کا بیانیہ اتنا چلایا گیا کہ عام لوگوں کو اس جھوٹ پر سچ کا گماں ہونے لگا مگر اﷲ کی طرف سے سچ سامنے آیا اور توشہ خانہ کا کیس سامنے آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والے واقعہ پر جے آئی ٹی بن چکی ہے اس کے ذریعے حقائق کی بنیاد پر قوم کے سامنے سچ لایا جائے گا، یہ وہ جے آئی ٹی نہیں ہے کہ ثاقب نثار صاحب نے پانامہ کو اقامہ بنایا، عمران نیازی عدلیہ کی توہین کرتے ہیں مگر کسی نے بھی نہیں پوچھا، یوسف رضا گیلانی کو تو توہین عدالت کی سزا دی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ قرب و جواب کے تمام ممالک آگے نکل گئے مگر ہمیں غربت، بے روزگاری کا سامنا ہے، آئیں مل کر بیٹھیں کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کیلئے فیصلہ کریں تاکہ آنے والی نسلوں کا نقصان نہ ہو، آج شرافت کا مقابلہ بدمعاشی سے ہے، اگر اس طرح معاملات رہے تو خدانخواستہ ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا، اب وقت کی قدر نہ کی تو پھر یہ ہاتھ نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ جتھوں کے ساتھ عدلیہ کو بلیک میل کرنے، آئین و قانون کو نہ ماننے والے کو ضمانتیں دی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا اس کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے، جتھوں کے ذریعے عدلیہ کو زیر بار کرکے ایسے فیصلے کرائے گئے اور ملک کا نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ الیکشن جمہوریت کا حسن ہے، صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم اور بلوچستان کے مردم شماری پر حقیقی تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کابینہ سے فیصلے کرانے کا درس دیا جاتا ہے، آپ خود بھی اپنی کابینہ سے فیصلہ کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کانفرنس ہو، کوویڈ کانفرنس ہو، فٹیف کے معاملات ہوں تو وہ سب کچھ پایہ حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے کیونکہ اس میں پتھر کا دل ہے، عمران نیازی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈیا ہے، دن رات چار سال تک ریاست مدینہ کی بات کرتا رہا، جب توشہ خانہ اور خانہ کعبہ کی گھڑی کے واقعات سامنے آئے تو ریاست مدینہ کی بات نہیں کر رہے، ریاست مدینہ کا نام لے کر قوم کے ساتھ جھوٹ بولا گیا اور بددیانتی کی گئی، قانون کو تسلیم نہ کرنے والوں سے بات نہیں ہو سکتی، اس نے آئین و قانون کو ضعف پہنچایا ہے، ہمارے پاس آئین و قانون کے علاوہ کچھ نہیں ہے،
عمران نیازی پوری قوم سے اپنے ڈاکوں اور چوری، عدلیہ اور چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف بے سروپا باتیں کرنے کی معافی مانگے، انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز عدالت عظمیٰ کے جو جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چار ججوں نے حق میں فیصلہ اور تین اراکین نے خلاف دیا۔ اس فیصلہ میں انہوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں اس حوالہ سے ایوان مشاورت کرکے جائزہ لے کہ ہم کیا قانون سازی کر سکتے ہیں، ان ججوں کے کل کے فیصلہ کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عدلیہ کے اندر سے امید کی نئی کرن سامنے آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب عدل نظر آئے تو تو ملک پر خطروں کے بادل چھٹ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے، اس کیلئے ہمیں آئین اجازت دیتا ہے کہ ہم قانون سازی کریں، اگر ہم نے یہ نہ کیا تو مؤرخ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے قانون و آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے یا یہاں جنگل کا قانون چلے گا۔ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے گذشتہ روز کے فیصلہ کے بعض اقتباسات پڑھ کر بھی سنائے۔ انہوں نے کہا کہ چار تین کے فیصلے کے تحت جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس بارے میں بھی غور کرنا ہو گا اور ریاستی اداروں، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والی نسلوں اور پاکستان کا کھویا ہوا مقام دلانے کیلئے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہو گا ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔