کراچی(رپورٹ:عقیل عباس جعفری بی بی سی، اردو)
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مولوی ابو القاسم فضل حق کا کردار ایک کیس سٹڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کبھی ملک کے اہم ترین مناصب پر فائض، تو کبھی غدار قرار پانے والے، مولوی ابو القاسم فضل حق کی وفاداری کو کئی رنگوں میں پیش کیا گیا اور ان کے سیاسی سفر میں کئی موڑ ایسے ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست کی جوڑ توڑ آج بھی ویسی ہی ہے جو قیامِ پاکستان کے وقت پر ہو رہی تھی۔
قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی ابو القاسم فضل حق کے سیاسی سفر کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ 26 اکتوبر 1873 کو بکرگنج، بنگال میں پیدا ہونے والے فضل حق نے کلکتہ کے یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔
1909 میں وہ ڈپٹی مجسٹریٹ بنے اور 1912 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ 1906 میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے اساسی رکن تھے اور سنہ 1912 میں پہلی مرتبہ بنگال کی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور اسی سال بنگال مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1935 میں انھوں نے کرشک پرجا پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی اور سنہ 1936 میں اس پارٹی کی جانب سے بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر فوراً ہی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد قائم کر کے یکم اپریل 1937 کو بنگال کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
23 مارچ 1940 کو انھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جس کے بعد انھیں ’شیر بنگال‘ کا خطاب عطا ہوا۔
چند ماہ بعد ہی وہ محمد علی جناح کی خواہش کے برخلاف وائسرائے ہند کی نیشنل ڈیفنس کونسل کے رکن بن گئے مگر جب بنگال کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے فضل حق کے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور انھیں مسلم لیگ سے نکالے جانے کا مطالبہ ہونے لگا تو انھوں نے نیشنل ڈیفنس کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ تو دے دیا لیکن عہد کیا کہ میں بنگال کے سوا تین کروڑ مسلمانوں کے مفادات کو کسی باہر کی اتھارٹی کے تسلط میں نہیں آنے دوں گا چاہے وہ اتھارٹی کتنی ہی معروف و ممتاز کیوں نہ ہو۔
اس کے بعد وہ جناح کے شدید نقاد بن گئے۔ انھوں نے ایک اخبار نوایوگ کے نام سے جاری کیا جس کا بظاہر کام مسلم لیگ کو برا بھلا کہنا تھا۔
جناح نے ان سے باز پرس کی تو ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بالآخر جماعتی نظم ضبط کو مقدم رکھتے ہوئے جناح نے انھیں مسلم لیگ سے نکال دیا۔
فضل حق نے شیاما پرشاد مکرجی کے ساتھ مل کر اپنی وزارت قائم رکھنے کی کوشش کی مگر جلد ہی ان کے اتحاد میں دراڑ پڑ گئی اور انھیں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ 29 مارچ 1943 کی بات ہے۔ فضل حق کے بعد خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
1946 میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد سہروردی بنگال کے وزیراعلیٰ بنے تو مولوی فضل حق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ سجدہ سہو بجا لاتے ہوئے 8 ستمبر 1946 کو دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
1947 میں قیام پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدین کو مشرقی بنگال کا وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ حالانکہ اس وقت وہ اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے۔ اصولاً یہ عہدہ حسین شہید سہروردی کو ملنا چاہیے تھا چنانچہ خواجہ ناظم الدین کو ابتدا سے ہی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
حسین شہید سہروردی نے مولوی فضل حق کو اپنے ساتھ ملایا اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے۔
شدید جوڑ توڑ کے بعد 25 جنوری 1948 کو خواجہ ناظم الدین بلامقابلہ اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی یہ حکومت 11 ستمبر 1948 تک جاری رہی۔ جناح کے انتقال کے بعد وہ پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے اور نور الامین مشرقی بنگال کے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے۔ سہروردی اور فضل حق کی باہمی مخالفت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
26 جولائی 1953 کو مولوی ابو القاسم فضل حق نے ڈھاکہ میں ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا نام کرشک سرامک (کسان مزدور) پارٹی رکھا گیا۔ اس سیاسی جماعت کے بنیادی مقاصد میں اس صوبائی خود مختاری کا حصول سرفہرست تھا جس کا 1940 کی قرارداد پاکستان میں (جو خود مولوی ابو القاسم فضل حق نے پیش کی تھی) وعدہ کیا گیا تھا۔
29 جولائی 1953 کو مولوی ابوالقاسم فضل حق نے کرشک سرامک پارٹی کے منشور کا اعلان کیا۔ اس منشور میں کہا گیا تھا کہ یہ جماعت مذہب اور زبان کی سیاست کی بجائے شہری آزادیوں کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لیکن آگے چل کر اس جماعت نے مشرقی پاکستان کی مکمل خودمختاری اور بنگالی کو پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ بھی اپنے مطالبات میں شامل کر لیا۔
4 دسمبر 1953 کو مشرقی پاکستان میں ایک انتخابی اتحاد کا اعلان ہوا جسے جگتو فرنٹ کا نام دیا گیا۔ یہ اتحاد چار سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی، گن تنتری دل اور نظام اسلام پارٹی پر مشتمل تھا جن کے قائدین سہروردی، مولوی فضل حق، مولانا بھاشانی اور مولانا اطہر تھے۔
اس فرنٹ نے 1954 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں شرکت کے لیے 21 نکاتی منشور کا اعلان کیا۔ یہ منشور عوام کی خواہشات اور جذبات کا ترجمان تھا اور اس میں مکمل صوبائی خود مختاری، امتناعی نظر بندی کے قوانین کا مکمل خاتمہ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی، بنیادی حقوق کے تحفظ، اردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے اور اسی نوع کے دیگر مطالبات شامل تھے۔ اپنے اس منشور کی وجہ سے جگتو فرنٹ دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان کا مقبول ترین سیاسی اتحاد بن گیا۔
8 مارچ 1954 کو مشرقی بنگال اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں ایک جانب مسلم لیگ تھی تو دوسری جانب جگتو فرنٹ (یونائیٹڈ فرنٹ یا متحدہ محاذ) تھا۔ انتخابات کے نتائج بڑے حیران کن تھے۔ مسلم لیگ کو 309 کے ایوان میں صرف 9 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
اگر ایک آزاد رکن فضل القادر چوہدری مسلم لیگ کی حمایت نہ کرتے تو اسے پارلیمانی پارٹی کا درجہ بھی نہیں مل سکتا تھا کیونکہ پارلیمانی پارٹی بننے کے لیے کم از کم دس نشستوں کا ہونا ضروری تھا۔
سب سے برا حال مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ نور الامین کا تھا جنھیں ایک غیر معروف طالب علم رہنما خالق نواز خان نے شکست فاش سے دوچار کیا۔
ان انتخابات نے واضح کر دیا کہ مشرقی بنگال کے عوام کن خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ انتخابات کے بعد مولوی فضل حق، مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ انھوں نے 3 اپریل 1954 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اسی دن ان کی کابینہ کے تین وزرا ابو حسین سرکار، اشرف الدین چوہدری اور عزیز الحق نے بھی اپنی عہدوں کے حلف اٹھا لیے۔
دو ماہ کے اندر اندر ہی ایسے کئی واقعات ہوئے جن کا سہارا لیتے ہوئے حکومت پاکستان نے 30 مئی 1954 کو مشرقی بنگال کی نومنتخب اسمبلی کو توڑ دیا اور فضل حق کو غدار قرار دیتے ہوئے ان کی وزارت کو ختم کر کے وہاں گورنر راج قائم کر دیا۔
مولوی فضل حق کی حکومت ختم کرنے کے لیے جن واقعات کو جواز بنایا گیا تھا ان میں سرفہرست واقعہ یہ تھا کہ 23 مئی 1954 کو نیویارک ٹائمز نے ان کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں ان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا کہ مشرقی بنگال کی آزادی ان کی وزارت کا سب سے اہم مقصد ہے۔
اس سے قبل جب وہ کلکتہ گئے تھے تو وہاں بھی ان سے یہ جملہ منسوب کیا گیا تھا کہ مشرقی اور مغربی بنگال کو آزادی حاصل کرکے متحد ہوجانا چاہیے مگر قرارداد پاکستان کے محرک مولوی فضل حق نے واضح اور واشگاف الفاظ میں ان دونوں بیانات کی تردید کی اور کہا کہ یہ ان کی وزارت کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی سازش ہے۔
اس سے پہلے 15 مئی 1954 کو نارائن گنج میں واقع آدم جی جوٹ ملز میں خونریز فسادات ہوئے تھے جن کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کا بازار گرم ہو گیا اور دو دن میں سات سو کے لگ بھگ افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔ مشرقی بنگال میں گورنر راج کے قیام کے بعد میجر جنرل اسکندر مرزا نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔
میجر (ر) ایس جی جیلانی اپنی کتاب ’پندرہ گورنر پندرہ کہانیاں‘ میں لکھا ہے کہ ’ایک سال بعد اگست 1955 میں ابوالقاسم فضل حق کو ایک مرتبہ پھر اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا اور ان تقریروں اور بیانات کے بارے میں جو ان سے منسوب تھے اور جن کی وجہ سے ان کی پاکستان سے وفاداری شک میں پڑ گئی تھی، اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے میں کسی بدقسمت لمحے میں جذبات میں بہہ کراس طرح کی باتیں کہہ گیا ہوں گا جو مجھے ہرگز نہیں کہنی چاہیے تھیں۔‘
میجر جیلانی لکھتے ہیں کہ ’وہ اپنی سیاسی طاقت اور مؤثر پارٹی پوزیشن کی وجہ سے وہ مسلم لیگ سے اتحاد اور افہام و تفہیم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں ایک سابقہ غدار کو اگست 1955 میں وزارت داخلہ کا قلم دان تفویض کردیا گیا۔ قسمت ان کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی، بعدازاں 1956 کے آئین کو آخری شکل دینے میں فضل حق نے نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ اب اعلیٰ سرکاری سطح پر ہر جگہ ان کی جے جے ہورہی تھی، چنانچہ ان کی ان خدمات کے پیش نظر انھیں مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔‘
9 مارچ 1956 کو وہ اپنے اہلخانہ اور عملے کے ساتھ ڈھاکہ پہنچے جہاں انھوں نے اسی روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ ابھی انھیں یہ منصب سنبھالے محض پانچ ماہ گزرے تھے کہ اگست 1956 میں ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ انھوں نے جس مرکزی وزارت کی تشکیل کی اس میں عوامی لیگ اور ری پبلکن پارٹی کو مدغم کردیا گیا تھا۔
ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فضل حق کے لیے کسی عظیم دھچکے اور سانحے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوتے ہی سہروردی ایک دن کے ہنگامی دورے پر مشرقی بنگال کے، جو اب مشرقی پاکستان کہلانے لگا تھا، دورے پر آئے۔
فضل حق اگرچہ کمزور تھے، بیمار بھی تھے اور پریشان بھی لیکن اس کے باوجود پروٹوکول کا لحاظ کرتے ہوئے وہ وزیراعظم کا استقبال کرنے کے لیے ائیر پورٹ گئے اور پورا دن ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ چند ماہ بعد سہروردی دوبارہ مشرقی پاکستان آئے تو فضل حق نے اس بار بھی ان کا حسب سابق استقبال کیا۔
مگر فضل حق زیادہ دیر تک سیاست سے لاتعلق نہ رہ سکے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ سہروردی کی عوامی لیگ، عوام کی حمایت کھو رہی ہے تو انھوں نے مشرقی بنگال کے وزیر اعلیٰ عطا الرحمن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔
23 مارچ 1958 کو اس تحریک پر ووٹنگ ہوئی، جس میں انھیں اکثریت سے کامیابی ملی۔ چند دن بعد 31 مارچ کو ابو حسین سرکار نے مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ یہ صورتحال مرکز کو ہرگز قبول نہیں تھی چنانچہ صدر مملکت (میجر جنرل سکندر مرزا) نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فضل حق کو گورنر کے عہدے سے معطل کر دیا اور ڈاکٹر اے ایم مالک کو صوبے کا نیا گورنر نامزد کر دیا۔
فضل حق کے عہدے سے ہٹنے کے بعد حمید علی نے صوبے کے قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالا اور حلف اٹھاتے ہی عطا الرحمن کی وزارت کو بحال کر دیا۔ ابو حسین سرکار کی وزارت اعلیٰ صرف چند گھنٹوں پر محیط رہی۔ محب وطن فضل حق ایک مرتبہ پھر غدار بن چکے تھے۔
اس کے بعد فضل حق عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ انھوں نے زندگی کے آخری برس ڈھاکہ میں کے ایم داس لین پر واقع اپنے گھر میں بسر کیے اور وہیں27 اپریل 1962 کو زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ وہ مشرقی پاکستان ہائی کورٹ کے صحن میں حاجی خواجہ شہباز کی مسجد کے عقب میں سپرد خاک کیے گئے جہاں ان کے بعد حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین بھی دفن ہوئے۔ اب اس مقام پر ایک خوب صورت مقبرہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان نے مولوی فضل حق کو ان کی زندگی میں ہی ہلال پاکستان کا اعزاز عطا کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد حکومت نے اسلام آباد کی ایک شاہراہ بھی ان سے منسوب کی اور سنہ 1990 میں ان کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
اس سے قبل ایسا ہی ایک ڈاک ٹکٹ 1980 میں حکومت بنگلہ دیش بھی جاری کر چکی تھی۔ کل کا غدار اب دونوں ملکوں کا محب وطن بن چکا تھا۔