’جب ہم اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں، کسی سے روٹی یا مدد مانگتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سیکس کرو۔ زندگی کے ابتدائی دنوں میں گزر بسر سیکس ورک سے ہی ہوتا تھا۔‘کراچی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی سرگرم کارکن شہزادی رائے ان دنوں سوشل میڈیا پر مسلسل تنقید اور حقارت کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔شہزادی رائے پر پچھلے دنوں مبینہ طور پر حملے کی بھی کوشش کی گئی، جس کے الزام میں گلشن اقبال پولیس نے ایک شخص کو گرفتار بھی کیا۔
’گھر نہ چھوڑتی تو زندہ نہ ہوتی‘شہزادی رائے کی پیدائش کراچی میں ہوئی اور ان کا تعلق ایک سندھی خاندان سے ہے۔ شہزادی کے مطابق ان کے خاندان نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہوا ہے اور وہ سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی اپنی فیملی سے الگ ہو گئی تھیں۔ بقول ان کے اگر وہ فیملی سے دور نہ ہوتیں تو شاید آج زندہ بھی نہ ہوتیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’نام نہاد غیرت کے نام پر قتل پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ یہ صرف عورتوں کا نہیں بلکہ ہمارا بھی مسئلہ ہے۔ ہمیں غیرت کے نام پر مار دیا جاتا ہے۔‘اپنے ماضی پر بات کرتے ہوئے شہزادی رائے کا کہنا تھا ہم خواجہ سراؤں کی زندگی کے جو ابتدائی دن ہیں، وہ بہت درد ناک ہوتے ہیں۔’اس قدر درد ہے کہ ہم اس کو بیان کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔ میں نے ملازمت سمیت ہر چیز کے لیے جو جدوجہد کی، وہ کسی مرد یا عورت کے مقابلے میں زیادہ ہے، بڑی مشکل سے اپنی پڑھائی مکمل کی۔‘شہزادی رائے کے مطابق وہ سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی اپنی فیملی سے الگ ہو گئی تھیں’آپ کی جنس ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے‘
شہزادی رائے کہتی ہیں کہ فیملی چھوڑنے کے بعد ان کا سہارا خواجہ سرا کمیونٹی بنی۔خواجہ سراؤں کی زندگیاں عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ جب لوگ ہمیں قبول نہیں کرتے تو ہم اپنی الگ دنیا بناتے ہیں اور ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘شہزادی بتاتی ہیں کہ ابتدائی ایام میں وہ ایک ادارے میں آٹزم والے بچوں کی مدد کیا کرتی تھیں لیکن انھیں وہاں سے نکال دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ کی جنس کی وجہ سے آپ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں، جس سے بڑا دل ٹوٹا۔‘’جس شخص نے ملازمت سے نکالا تھا وہ ہی شخص دس سال بعد اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ میں ملا۔ ظاہر ہے قسمت اور وقت بدلتا ہے، میں نے کہا کہ کہ آج میں اس شخص کے سامنے بیٹھی ہوں جس نے جنس کی بنیاد پر مجھے ملازمت سے نکال دیا تھا۔‘جب ہر رات سیکٹر انچارج کے سامنے پیش ہونا پڑتا
شہزادی رائے نے گھر تو چھوڑ دیا لیکن باہر کا ماحول ان کے لیے سازگار نہ تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ سہراب گوٹھ کی طرف رہتی تھیں، جو شہر کا خطرناک علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
شہزادی رائے جب وہاں سے نکلیں اور سیکٹر کے علاقے میں آئیں تو یہاں بھی انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’سیکٹر انچارج نے میری زندگی کو بہت خراب کیا، روزانہ رات کو اس کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا۔ پہلے گھر کا تشدد برداشت کیا، علاقے کا تشدد برداشت کیا۔ اس کے بعد پھر یہ چیز ہوئی تو میں نے خود سے سوال کیا کہ کیا یہ زندگی ہے؟ کیا میں اس زندگی کے لیے آئی ہوں۔ یہاں سے میں نے ایکٹو ازم شروع کیا اور اس سب کے خلاف آواز اٹھائی۔‘’اگر کسی خواجہ سرا کو شناختی کارڈ بنوانا ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتا ہے۔ بہت سے خواجہ سرا پڑھنے کی طرف رجحان کر رہے ہیں تو کسی کو یونیورسٹی میں داخلہ چاہیے تو ان کا رابطہ کراتی ہوں۔ کسی پر تشدد ہوتا ہے تو مجھ سے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ پولیس کی فوکل پرسن ہوں۔ میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ انھیں شیلٹر فراہم کر سکوں ہاں کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر میں پناہ دیتی ہوں جب تک ان کا مسئلہ حل ہو۔‘ شہزادی رائے نے پچھلے دنوں ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان پر حملے کی کوشش کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے اس کا نوٹس لیا اور مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔شہزادی رائے بتاتی ہیں کہ یہ چوتھا حملہ تھا جس میں لوگ دروازے تک پہنچے۔ شہزادی رائے نے یہ ویڈیو بنا لی اور سوشل میڈیا پر لگا دی تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ انھیں کیسے ہراساں کیا جاتا ہے۔شہزادی رائے کے مطابق کچھ عرصے بعد یہ شخص اپنے ایک ساتھی کے ساتھ آیا اور اپنے ساتھ تیزاب کی بوتل بھی لائے۔‘خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کا قانون تاخیر کا شکار کیوں؟شہزادی نے بتایا کہ کہ وہ گھر پر موجود نہیں تھیں لیکن ان کی ویڈیو بنا لی گئی اور انھوں نے وہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی جس کے بعد ایف آئی آر ہوئی اور اس شحض کو گرفتار کر لیا گیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’تیزاب کی بوتل لانا مذاق نہیں ہوتا۔ اگر وہ پھینک دیتے تو کچھ لوگ تو یہ ہی کہتے کہ خواجہ سرا لوگ تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔‘شہزادی رائے کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی جو انھوں نے ایئرپورٹ سے ریکارڈ کی تھی، جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ ایک ایئرلائنز نے انھیں سفر سے روک دیا۔’ایئر لائنز کے ,اسٹاف نے میرا بورڈنگ پاس لیا اور پھاڑ دیا اور کہا کہ آپ کو اجازت نہیں، آپ کا جینڈر ایکس ہے۔‘سینیٹ میں جب خواجہ سرا ایکٹ میں ترمیم ہوئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں نے اعتراض اٹھائے تو کراچی میں شہزادی رائے کی زیر نگرانی اور زیر قیادت پہلا ’مورت مارچ‘ نکالا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس مارچ کا اصل مقصد معاشرے میں اپنے لیے جگہ بنانا تھا۔
پاکستان کا حال دیکھیں یہاں معشیت تباہ حالی کا شکار ہے۔ ہم ڈیفالٹ کرنے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ہماری سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی کمیٹی ہم پر تبصرے کر رہی ہیں۔‘شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ یہاں مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’پہلے لبرل عورتیں کافر لگتی تھیں اور اب ہم خواجہ سرا کافر لگتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک منظم مہم کے تحت حقارت مہم کی نشانہ بنی ہوں۔ میری کردار کشی کی جاتی ہے، میری ویڈیوز، تصاویر سب کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتی ہوں ایک منظم منصوبے کے تحت یہ کیا جا رہا ہے تاکہ ہم چپ ہو جائیں اور خواجہ سرا حقوق کی بات نہ کریں۔‘شہزادی خود کو ایک انقلابی روح قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سندھ چھوڑ کر نہیں جانا، پاکستان چھوڑ کر نہیں جانا۔ یہاں ہی رہنا ہے اور سمجھوتے سے نہیں رہنا۔‘