کراچی( نمائندہ خصوصی )معروف دستاویزی فلم ساز ادارے دی امیجز پاکستان پروڈکشن نے عالمی فلاحی ادارے پاکستان ہلال احمر سندھ کے اشتراک سے کلائمیٹ چینج کے موضوع پر ہلال احمر ہاؤس کراچی میں ایک سیمینار منعقد کیا ، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف و ممتاز شخصیات کے ساتھ ساتھ عوام کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ، اس سیمینار میں دی امیجز پاکستان پروڈکشن کی جانب سے کلائمیٹ چینج اور دیگر انوائرمینٹل ایشوز پر بنائی گئی ایک ریسرچ بیس طویل دورانیئے کی دستاویزی فلم بھی شرکاء کو ملٹی میڈیا اسکرین پر دکھائی گئی ، جبکہ انوائرنمنٹل سائنٹسٹ اور سابق ڈائریکٹر جنرل سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کلائمیٹ چینج کے موضوع پر ریسرچ بیس پریزینٹیشن دی ، ڈاکٹر اقبال سعید خان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ ساری دنیا کے لیئے ایک خوفناک تھریڈ بن چکا ہے ، خصوصاً ہمارے شہروں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں بلکہ یہاں اب مستقبل میں خلق الہی کی بقا بھی ایک چیلنج بنتا ہوا نظر آ رہا ہے ، ہمارے شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ، بڑھتے ہوئے درجہ
حرارت کی وجہ سے ہمارے شہر ہیٹ کے آئی لینڈ بن چکے ہیں ، ڈاکٹر اقبال سعید خان کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جہاں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ان ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر آ چکا ہے ، جوکہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ، پاکستان کے شہری علاقے جن میں خصوصاً کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ ، لاڑکانہ ، جیکب آباد ، سبی ، وہ شہر ہیں جنہیں اربن ہیٹ نے تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، انہوں نے مذید کہا کہ جب کسی بھی شہر کا درجہ حرارت اگر اپنے پڑوسی شہروں کے درجہ حرارت سے پانچ درجہ زیادہ رہنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ وہ شہر ہیٹ کا ایک آئی لینڈ بن چکا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ کراچی جیسے بڑی آبادی والے شہر میں بے ہنگم اور بے ترتیب بننے والی بلند و بالا عمارتوں نے کراچی کے کلائمیٹ کو بری طرح سے متاثر کیا ہے ، ان عمارتوں نے شہر میں داخل ہونے والی سمندری ہواؤں کے ربط کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ، جبکہ سونے پہ سہاگہ زیادہ تر غیر معیاری سیمنٹ سے بنی یہ عمارتیں دن بھر ہیٹ کو جذب کرتی رہتی ہیں اور پھر رات کو اس ہیٹ کا ان عمارتوں سے اخراج
ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے اب رات میں بھی شہروں میں موسم گرم رہنے لگا ہے ، جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کراچی میں گرین شیڈ (درختوں کا سایہ) ایک فیصد بھی نہیں ہے ، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے کسی بھی خطے کا پچیس فیصد رقبہ سبز ہونا چاہیئے ، ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اقوام متحدہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے تقریباً اکیس فیصد رقبے کو سبز کر لیا ہے ، ڈاکٹر اقبال سعید خان کا کہنا تھا کہ شہروں میں بڑھتی ہوئی دھواں چھوڑتی بے ہنگم ٹریفک ، سارا دن ہیوی وہیکل گاڑیوں کی آمد و رفت ، اور گھروں اور دفاتر میں بہت بڑی تعداد میں چلتے ہوئے ائیر کنڈیشنڈ ، برقی پنکھوں اور دیگر مشینریز نے بھی شہر کا درجہ حرارت بڑھایا ہے ، جبکہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے ، ہم اہل زمین دراصل جیسے اب ایک
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تنے ہوئے غبارے میں قید اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، انہوں نے مذید کہا کہ اگر ہم اپنے گھروں کی چھتوں ، گھروں کے آنگن اور اپنے قرب و جوار میں پودے اور درخت لگا دیں تو شہروں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے ، ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ دی امیجز پاکستان پروڈکشن کے پلیٹ فارم سے اب لوگوں کو ہر حقیقت کو واضح طور پر بتا دیا جائے ، سیمینار میں اپنے خطاب میں سیکرٹری پاکستان ہلال احمر سندھ کنور وسیم کا کہنا تھا کہ شہزاد علی شاہ اور ان کے ادارے دی امیجز پاکستان پروڈکشن نے کلائمیٹ چینج یا ماحولیات کے درپیش مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیئے جو بیڑہ اٹھایا ہے پاکستان ہلال احمر سندھ اسے سراہتا ہے ، کلائمیٹ چینج یا ماحولیات صرف کسی ادارے یا فرد کو لاحق مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ہم سب کا ہمارے بچوں کا ہماری آنے والی نسلوں کا بلکہ تمام اہل زمین کا مشترکہ مسئلہ ہے ، کلائمیٹ چینج نیکسٹ ڈور پرابلم نہیں ہے بلکہ یہ وہ تیز دھاری تلوار ہے جو اب ہر لمحہ اہل زمین کے سروں پر لٹک رہی ہے ، کلائمیٹ چینج دراصل اب بڑے ڈزاسٹر میں بدلتا جا رہا ہے ، طوفانی بارشیں ہو رہی ہیں تباہ کن سیلاب آ رہے ہیں ، پہلے جن علاقوں میں بارش نہیں ہوتی تھیں اب وہاں موسلہ دھار بارشیں ہو رہی ہیں ، اور جہاں پہلے بارشیں ہوتی تھیں اب وہ علاقے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں ، اہل زمین کو اب بڑے پیمانے پر پانی اور غذائی قلت کا سامنا بھی ہے جو آئندہ چند سال میں خوفناک صورتحال اختیار کر لے گی ، شہری علاقے آئے روز شدید ہیٹ ویو کے لپیٹے میں آ رہے ہیں ، ہیٹ اسٹروک سے لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں ان کی اموات بھی ہو رہی ہیں ، ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہلال احمر سندھ کی جانب سے پورے صوبے میں آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف نوعیت کے پراجیکٹس پر بھی متواتر کام کیا جارہا ہے ، کلائمیٹ چینج اور اس کے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیئے ہلال احمر سندھ کی پوری ٹیم سندھ بھر میں مکمل فعال کردار ادا کر رہی ہے ،
کلائمیٹ چینج اور میڈیا کا کردار کے دیئے گئے موضوع پر کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر فہیم صدیقی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج جیسے انتہائی اہم موضوع پر اس سیمینار کا منعقد کیا جانا حوصلہ افزا ہے ، میں شہزاد علی شاہ ان کے ادارے دی امیجز پاکستان پروڈکشن اور پاکستان ہلال احمر سندھ کی اس مشترکہ کاوش کو سراہتا ہوں ، دی امیجز پاکستان پروڈکشن کی بنائی گئی دستاویزی فلم میں کلائمیٹ چینج اور ماحولیات کے بارے میں جن ایشوز پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ بہت اہم ہیں ، ہمیں انہیں سنجیدگی سے لینا ہوگا ، تاہم ایک میڈیا پرسن ہونے کے باوجود مجھے یہاں یہ کہنے دیجیئے کہ پاکستانی میڈیا نے کلائمیٹ چینج جیسے انتہائی اہم اور حساس موضوع کو اب تک سنجیدہ نہیں لیا ہے ، اس موضوع پر ہمارے میڈیا کا وہ فوکس نہیں ہے جو ہونا چاہیئے تھا ، جس طرح اس موضوع کو اجاگر کرنا چاہیئے تھا وہ نہیں کیا جارہا ، جبکہ بین الاقوامی میڈیا بڑے مربوط اور موثر انداز میں کلائمیٹ چینج اور ماحولیات کے ایشوز کو اجاگر کر رہا ہے اور اپنے لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہا ہے ، جبکہ ہم پاکستان میں ایک بریکنگ نیوز سناریو میں رہ رہے ہیں جہاں ٹی وی چینلز پر مستقل سیاسی بریکنگ نیوز اور پریس کانفرنسز ہی چل رہی ہوتی ہیں ، گزشتہ سال پاکستان میں طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے بہت بڑی تباہی
پھیلائی ، اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا ، بارشوں اور سیلاب سے سندھ اور بلوچستان تباہ ہو رہا تھا ، لوگ مر رہے تھے ، نت نئے مسائل جنم لے رہے تھے ، ہماری زرعی زمینیں اور املاک تباہ ہو رہی تھیں ، مگر اس وقت بھی ٹی وی چینلز پر سیاست ہی دکھائی جا رہی تھی سیاستدانوں اور ان کے مسائل کو ہی فوکس کیا جا رہا تھا ، کلائمیٹ چینج ایک ایسا موضوع ہے جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ، بد قسمتی سے ہماری حکومت کا بھی اس موضوع پر فوکس نہیں ہے ، ہم نے اس موضوع کو سنجیدگی سے نہ لے کر دراصل اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے ، اب ہمیں ہر وقت کسی بھی بڑی تباہی کے لیئے تیار رہنا ہوگا اور اس تباہی کا شکار زیادہ تر بچے بوڑھے اور خواتین ہی ہوتے ہیں ، شہر کراچی بھی شدید ماحولیاتی اور بدلتے ہوئے موسمیاتی خطرات میں گھرا ہوا ہے ، جہاں ہر طرف ایک کنکریٹ کا جنگل ہی نظر آتا ہے ، جبکہ یہاں درختوں کی شدید کمی ہے ، اور سبز احاطہ محض ایک فیصد بھی نہیں ہی ہے ، اب وقت آ گیا ہے کہ کلائمیٹ چینج اور اس کے محرکات پر ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا ، ہر فرد ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ، جیو نیوز کی حد تک تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جیو نیوز میں باقاعدہ کلائمیٹ چینج اور انوائرنمنٹ کی ڈیسک موجود ہے جو ان موضوعات کو کور کر رہی ہے ، اور نا صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کے انوائرنمنٹ کو فوکس کر رہی ہے ، ہمیں اب حقیقی معنوں میں سنجیدگی دکھانا ہوگی ، ہمیں اپنی بقا کے لیئے جاگنا ہوگا ، ہماری بقا اس دنیا کی بقا ہے اور اس دنیا کی بقا ہماری بقا ہے ،
سیمینار کے گیسٹ آف آنر چیئرمین پاک چائنہ سٹیزن ایسوسی ایشن زاہد قمر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان میں ماحولیات اور کلائمیٹ چینج کے موضوع پر لوگوں میں آگاہی فراہم کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے ، ان کا مذید کہنا تھا کہ ہمارے شہر میں صفائی کا فقدان ہے ، گلی محلے ، سڑکیں اور بازار کچرے سے اٹے پڑے ہیں ، ہم روزانہ بہت بڑے پیمانے پر کچرا پیدا تو کرتے ہیں مگر اسے صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتے ، جس کے ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ کچرے کو ضائع کرنے کے لیئے جدید خطوط پر کام کرتے ہوئے ایک موثر اور مربوط نظام قائم کیا جائے تاکہ ہمارا ماحول صاف ستھرا رہے ، سیمینار کے چیف گیسٹ کموڈور (ریٹائرڈ) عبید اللہ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج جیسے اہم ترین موضوع پر آج کی شام اس سیمینار کا انعقاد کیا جانا اور مدلل انداز میں لوگوں میں آگاہی فراہم کرنا ایک خوش آئند بات ہے ، میں شہزاد علی شاہ ان کے ادارے دی امیجز پاکستان پروڈکشن اور پاکستان ہلال احمر سندھ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے مل کر اتنے اہم موضوع پر یہ سیمینار منعقد کیا ، ان کا کہنا تھا کہ اس سیمینار میں تمام مقررین کی گفتگو انتہائی پر اثر اور مدلل تھی ، تاہم اس سیمینار میں سب سے زیادہ اہم ملٹی میڈیا اسکرین پر دکھائی جانے والی دی امیجز پاکستان پروڈکشن کی بنائی گئی ریسرچ بیس دستاویزی فلم تھی ، یہ واقعی ایک آگاہی اور معلومات سے بھرپور دستاویزی فلم ہے جسے بڑی مہارت اور فنی صلاحیتوں کے ساتھ پروڈیوزڈ کیا گیا ہے ، کلائمیٹ چینج کیونکہ ایک انتہائی وسیع اور پیچیدہ ٹاپک ہے اور اس فلم میں بڑی مہارت سے جیسے معلومات کے سمندر کو ایک کوزے میں سمیٹ دیا گیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج کسی ایک شہر یا ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو پوری کرہ ارض اور تمام اہل زمین کو لاحق مسئلہ ہے ، کلائمیٹ چینج کی وجہ سے متواتر بے شمار مختلف نوعیت کے سنگین مسائل اور خطرات پیدا ہو رہے ہیں ، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں ، اور ان کا صاف شفاف پانی نمکین پانیوں میں شامل ہو رہا ہے ، جس سے نا صرف ہمارے پینے کے پانی کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں بلکہ سمندر کی سطح بھی بڑھ رہی ہے ، جبکہ ہم نے اپنے سمندروں کو بھی آلودہ کر دیا ہے جس سے سمندری حیات بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور ہماری سمندری خوراک کا معیار بھی شدید متاثر ہو رہا ہے ، آلودہ پانی میں پرورش پانے کی وجہ سے اب یہ خوراک انسانوں کے لیئے ناقابل استعمال ہوتی جا رہی ہے ، سیمینار سے کراچی بار ایسوسی ایشن کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے چیئرمین عابد علی جتوئی نے بھی خطاب کیا ، جبکہ ڈاکٹر سید محمد شاہ نے سیمینار کے شرکاء کو ہیٹ ویو پریوینشن پر لائیو ڈیمو پیش کیا ، سیمینار کی میزبانی کے فرائض معروف نیوز کاسٹر شعیب یار خان اور صبا فصاحت نے ادا کیئے ، آخر میں دی امیجز پاکستان پروڈکشن کی جانب سے اوور سیز پاکستانی کمیونٹی بیلجیم کے صدر معظم الرحمان نے سیمینار میں شریک تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ، سیمینار میں شہر کی معروف اور ممتاز شخصیات جن میں نور محمد شاہ ، کرنل ڈاکٹر عارف ، سابق پرنسپل ایس ایم لاء کالج پروفیسر عمر فاروق ، صدر کراچی بار ایسوسی ایشن عامر سلیم ، سابق ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن سندھ اقبال احمد شیخ ، سابق سینئر ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ انور صدیقی ،
ممبر جنرل اسمبلی سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اینڈ سی ای او ویژن کلچر اینڈ ٹورزم پرائیویٹ لمیٹڈ مریم صبا چوہدری ، عاصم احمد رضا ایڈوکیٹ ، دانش مجید ، ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ گرلز اسکول کورنگی احمد شاہ ، سابق ڈائریکٹر سندھ کچی آبادی امداد علی لاشاری ، انور بلوچ ، فہد احمد شیخ ، علامہ حافظ وقاص احمد شاہ ، معاز احمد شاہ ، صہیب صلاح الدین ، محمد عمیر ، محمد جاوید ، نفیس صدیقی ، افضل بھائی ، ایم ٹی شہریار ، جنید رضا ، احمد رضا ، طہ ، ینگ ڈاکٹرز ہومیو پیتھک ویلفئر ایسوسی ایشن ڈاکٹر فرح دیبا ، محمد ہاشم نے بھی شرکت کی جبکہ ہلال احمر کی انتظامیہ ٹیم میں محمد اقبال ، محمد فرقان ، محمد فراز اور دیگر موجود تھے ۔۔۔