لاہور ( رپورٹ/نواز طاہر)
پولیس اور انتظامیہ نے آپریشن کر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے آبائی گھر زمان پارک کو شدید مزاحمت کے بعد ایک بار اسلحہ برآمد درجنوں مزاحمتی کارکنوں کو گرفتار، عارضی طور پر بسایا جانے والا عمران بچاﺅ گاﺅں اجاڑ دیا اور تجاوزات ہٹا کر مکمل صفائی کروادی لیکن چند گھنٹوں کے اندر ہی تجاوازات اور رکاوٹیں دوبارہ کھڑی ہونا شروع ہوگئیں ہیں، اور وقتی طور پو غائب کارکن بھی دوبارہ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ، پی ٹی آئی نے پولیس کے آپریشن کو عمران خان کے گھر پر ’حملہ ‘ قراردیتے ہوئے کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کی کال دیدی تاہم لاہور میں وکلاءکے احتجاج کے ماسوا لاہور شہر میں کہیں احتجاج نہیں ہوا تاہم صوبے کے دیگر کئی شہروں میں کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ۔
جمعہ کو مختلف نوعیت کے نو مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی منظوری سے قبل پی ٹی آئی اورانتظامیہ میں طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں پولیس اور انتظامیہ نے قانون کے مطابق زمان پارک میں تجاوزات اور وہاں سے خطرناک ملزموں کی گرفتاری ، دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کی پابندی کروانے اور پولیس و کارکنوں میں تصادم کے واقعات کی تفتیش کے شواہد اکٹھے کرنے کیلئے عمران خان کی رہائش گاہ کے اطراف میں آپریشن کیا تو سرکاری اہلکاروں پر گولیوں ، پتھروں ، کنچوں ( شیشے کے بنٹوں) اورپٹرول بموں سے حملہ کیا جس کے جواب میں پولیس نے کارروائی کی اور کرین کی مدد سے دروازے توڑ کر گھر میں داخل ہوگئی جس دوران حملہ کرنے والے درجن سے زائد کارکنوں کے حراست میں لے لیا اور اس کے بعد مزاحمت کرنے والے تیس سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا جبکہ دو اسسٹنٹ کمشنروں کی نگرانی میں انسداد تجاوزات کے عملے نے علاقے سے تجاوزات ختم کرتا رہا ملبہ و باقیات سرکاری تحویل میں لیکر میونسپلٹی کے دفاتر میں منتقل کرتا رہا ۔ یہ آپریشن عمران خان کی غیر موجودگی میں اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری نے ابہر گل خان انتظامی جج انسداد، دہشت گردی عدالت سے سرچ وارنٹ لینے کے بعد شروع کیا ، اپریشن سے پہلے پولیس نے وہاں موجود سو کے قریب کارکنوں کے دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت اجتماعات پر عائد پابندی پر عمل کرنے اور منتشر ہونے کیلئے میگا فون پر اعلان کیا لیکن کارکنوں نے الٹا حملہ کردیا ۔ پولیس جیسے ہی عمران خان کے دروازے پر پہنچی اور اعلان کیا کہ اس کے پاس عدالتی احکامات کے مطابق سرش وارنٹ بھی ہے اور لیڈیز پولیس بھی ہمراہ تو عمران خان کی رہائش گاہ کی چھت پر قائم کیمپ سے پولیس پر پیٹرول بم پھینکے گئے، غلیلوں سے پتھر اور کنچے برسائے گئے اور گھر کے اندر سے ہی دو فائر کیے گئے جس پر پولیس نے بھر پوری جوابی کارروائی کی اور کرین کی مدد سے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئی ۔ پولیس کو عمران خان کے گھر کے اندر بھی کارکنوں کی بھرپور مزاحمت کا سامنا رہا تاہم پولیس کی بھاری جمعیت نے قلیل تعداد میں کارکنوں پر قابو پالیا ۔ اس آپریشن کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کہ اہلیہ بشریٰ ب ی بی گھر موجود تھیں لیکن پولیس نے ان کے کمرے اور رہائشی کمروں کا رخ نہیں کیا اور مزاحمہکارکنوں پر قابو پانے اور کم و بیش پچاس کارکنوں کی گرفتاری کے بعد کے بعد لیڈیز پولیس کی۹ موجودگی میں سرچ آپریشن شروع کیا ۔ حراست میں لئے جانے والے کارکنوں میں لاہور سے تعلق رکھنے والا کوئی کارکن سامنے نہیں آسکا ، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں سے تھا جن میں سے کوئی بھی پنجابی یا سرائیکی اسپیکنگ نہیں تھا اور زیادہ تر اردو وہ پشتو میں گفتگو کرنے والے تھے ۔ ان میں سے ایک کارکن نے پولیس کی ’قیدی وین ‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا رہنے والا تاہم اس نے تحصیل ، ضلع م شہر اور گاﺅں کا نام نہٰن بتایا لیکن جیسے ہی دو اور کارکنوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے آبائی علاقے اور حلقہ انتخاب میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں تو ، خود کو ڈی آئی خان ضلع کا رہائشی بتانے والے بھی کہا کہ وہ بھی میانوالی کا رہنے والا ہے ۔ پولیس نے پورے علاقے کا محاصرہ کرکے یہ آپریشن نصف گھنٹے میں مکمل کرلیا ۔ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ بھاری جدید اسلحہ علاوہ ہزاروں کی تعداد میں کنچے ، پتھر غلیلیں اور ڈنڈے سوٹے برآمد کیے گئے ہیں ۔ پولیس کے مطابق کچھ اہلکاروں نے بتایا کہ سرچ آپریشن کے دوران ممنوعہ مشروب کی بوتلیں اور چرس بھی برآمد ہوئی جبکہ مزاحمتی کارکنوں نے بتایاکہ پولیس نے آپریشن کے دوران برآمدہونے والی چرس جیبوں میں ڈال لی اور قیمی شوز بھی اٹھا کر لے گئی ، ان کارکنوں کے مطابق ،معروف براڈ کے قیمتی شوز ملنے پر درجن سے زائد اہلکاروں نے اپنے بوٹ اتار کر فوری طور پر ان بوٹوں کو پہن لیا ۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق معمول کے اوقات میں دکھائی دینے والے بیرون شہر سے آئے ہوئے بہت سے کارکن آپریشن کے وقت غائب تھے جبکہ ان کے ن بارے میں اطلاعات ہیں کہ سفٹوں میں مختلف ماقمات پر قیام کرتے ہیں ۔ ذرائعکے مطابق ایسے کارکنوں کی گرفتاری کیلئے بھی الگ سے چھوٹے چھوٹے آپریشن ہورہے ہیں ۔ پولیس اور انتظامیہ کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد سمیتکچھ سابق خواتین اراکین اسمبلی بھی پہنچ گئیں جنہوں نے پولیس کیخلاف نعرہ بازی کی اور عمران خان کے گھر کے باہر جمع ہوکر گیٹ کی جگہ بیٹھ گئیں ۔ اسی دوران زمان پارک جانے والے تمام راستے مکمل طورپر بند رہے ، اسی آپریشن کے دوران ہی لاہور ہائیکورٹ میں اس آپریشن کیخلاف رٹ درخواست بھی دائر کی گئی اور وکلاءنےنے جی پی او چوک میں احتجاج مظاہرہ انہوں نے مال روڈ بلاک کرکے شدید نعرے بازی کی اور پولیس آپریشن کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جبکہ نگران وزیراطلاعات عامر میر اور انسپکٹر جنرل پولیس عثمان انور نے ہنگامی پریس بریفنگ میں میڈیا کو مبینہ طور پر عمران خان کے گھر سے برآمد ہونے والے پیٹرل بم دکھائے، برآمد ہونے والے اسلحے کی تفصیل بھی بتائی جس میں سولہ خود کار رائفلیں بھی شامل ہیں میڈیا کوبتایا گیا کہ آپریشن کے دوران اور اس سے قبل جدید ترین ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے تصاویر، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے، جیو فینسنگ اور جیو ٹیگنگ کے ذریعے، اسپیشل برانچ، ڈیٹیکٹو فورٹس کانسٹبلز کی رپورٹ پر دیگر ایجنسیوں کے تعاون کے ساتھ دیگر عوامل کی مدد سے ان لوگوں کی فہرست تیار کی جو مختلف مقامات سے لاہور میں آتے ہیں اور شر پسندی پھیلاتے ہیں، کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکنکسی بے گناہ شخص کی گرفتاری نہیں ڈالی جائے گی۔ گرفتار تماشدگانعدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ہم نے وہاں جگہ بھی دیکھی جہاں پیٹرول بم تیارکیے جاتے تھے، ریت کی بوریاں رکھ کر بنکر بنا کر نوگو ایریا کا ایک تاثر پیدا کیا جا رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہاں گھر کی حدود سے اسلحہ بر ا?مد ہوا، اس کے علاوہ بھی وہاں اسلحہ موجود ہے۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہونے اور پی ایس ایل کے فائنل میچ کی وجہ سے زمان پارک میں کارروائی روکی گئی ہے ۔
یہ سطور لکھے جانے تک وزیراعلیٰ کے حکم پر زمان پارک جانے والے راستے کھول دیے تھے اور مختلف شاہرات سے کنٹینرز بھی ہٹا دیے گئے تھے جبکہ رات سوا نوبجے تک کارکنوں کی تعداد مسلسل زمان پارک میں بڑھ رہی تھی ۔