کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ ملک تب ترقی اور پھلے پھولے گا جب تین ستون مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں گے،ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے سے نہ صرف ملک کی حقیقی ترقی کو متاثر کیا ہے بلکہ بگاڑ جنم دیا ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو اسمبلی فلور پر اپنی پری بجٹ تقریر کے اختتامی خطاب میں کہی۔ وزیراعلی نے کہا کہ صوبائی اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کا نام تبدیل کر کے پیر ابوالقادر شاہ جیلانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز رکھا لیکن عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی قانونی ٹیم کو اپیل تیار کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ عدالتیں ایسی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دے سکتیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ انہوں نے اپنے تمام محکموں کو ایسے فیصلوں کی فہرست تیار کرنے کی بھی ہدایت کی ہے جو مقننہ کے دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہیں تاکہ اپیل دائر کی جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرحوم پیر عبدالقادر شاہ جیلانی پانچ بار ایم این اے اور وفاقی وزیر کی حیثیت سے اس صوبے کی خدمت کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے نام پر ایک ادارے کو وقف کرنا انکی خدمات کا اعتراف ہے اور یہ اسمبلی نے کیا ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ معزز ججزچیف سیکرٹریز، آئی جی پیز اور دیگر افسران کو طلب کر رہے ہیں اور انہیں دھمکی دی ہے کہ وہ ان کے احکامات پر عمل درآمد کریں ورنہ وہ انکے وزرائے اعلی کو طلب کر لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں بلکہ ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ انھیں(عمران خان) سے ملانا اس ملک کی تاریخ اور بہادر اور بصیرت رکھنے والے لیڈروں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ وزیراعلی سندھ نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ وہ اس ملک کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں اور کہتے چلے گئے کہ وہ اپنے بچوں کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے جو انہوں نے کرکےدکھایا۔ اور مزید کہا کہ دوسری طرف ایک فاشسٹ جماعت کے لیڈر (عمران خان) اپنی حفاظت کیلئے اپنے معصوم کارکنوں کو ڈھال بنا رہا ہے۔ شہید ذوالفقار بھٹو نے بہادری سے پھانسی کے تختہ پر چڑھ گئے جبکہ وہ (عمران خان) اپنے بستر کے نیچے ماسک پہنے چھپے ہوئے ملے ۔ مراد علی شاہ نے 1971 میں اقوام متحدہ میں شہید بھٹو کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندوستانی وزیر خارجہ سوارن سنگھ کو "ممتاز”کے لقب سے پکارنے پر انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے ہاتھ پاکستانی عوام کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف فاشسٹ لیڈر (عمران خان) کھلے عام اپنے معصوم کارکنوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو جانتی تھیں کہ وطن واپسی پر انہیں قتل کردیا جائے گا لیکن وہ پاکستان واپس آئیں۔ اس کے برعکس انھوں نے(عمران خان) دہشت گردوں کی ایک کالعدم تنظیم کے رکن کو اپنے تحفظ کیلئے رکھا ہوا ہے۔ یہی فرق ہے حقیقی جمہوری لیڈروں اور ایک فاشسٹ جماعت میں جو خونریزی پر یقین اور ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے اور عدالتی احکامات نہیں مان رہے اور وہ اس ملک کے اداروں کا احترام نہیں کرتی۔ مراد علی شاہ نے عمران خان کی 31 اکتوبر 2018 کی تقاریر اور اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ججز کو قتل کرنے اور آرمی چیف کو ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کا حکم دیا تھا۔وزیراعلی نے کہا کہ جب میں پڑھتا تھا تو وہ (عمران خان) کرکٹ کھیلتے تھے اور جب وہ 50 سال کے ہوچکے تھے تو میں نے پڑھنا شروع کیا لہذہ انکے پاس کوئی عقل نہیں، سیاسی دانشمندی نہیں اور نہ ہی وہ کسی کی عزت کرتے ہیں۔