کراچی( نیٹ نیوز ) سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کو آئوٹ سروس کرنے سے متعلق اہم انکشاف سامنے آیا ہے اور “ایکسپریس” کی رپورٹ کے مطابق محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور اس کی وزارت بورڈز کے سندھ اسمبلی سے منظور شدہ ایکٹ کے برخلاف انعقاد سے لے کر اسسمنٹ تک پورا امتحانی نظام ٹھیکے پر نجی پارٹی کو دینا چاہتی ہے اور ایک نجی کمپنی کو نوازنے کے لیے سندھ کے تمام چیئرمینز بورڈز پر شدید دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے تاکہ سال 2023 کے سالانہ امتحانات کا کچھ حصہ “ریڈ مارکر” نامی کمپنی کے حوالے کردیں جبکہ اس کمپنی کا سندھ سے تعلق بھی نہیں ہے۔ایک چیئرمین بورڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر “ایکسپریس” کو بتایا کہ “قریب دوہفتے قبل محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری نے اجلاس بلاکر وہاں مذکورہ کمپنی کی ایک خاتون نمائندہ سے بریفنگ کرائی اس کمپنی کا خواہش تھی کہ چار مختلف حصوں میں ہونے والے میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے ابتدائی تین مراحل اسی سال سے ان کے حوالے کردیا جائیں جس میں پہلے مرحلے میں امتحانی پرچوں کی تیار، دوسرے مرحلے میں ان کا انعقاد اور تیسرے مرحلے میں امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ شامل ہو جبکہ چوتھا اور آخری نتائج کے اجراء کا مرحلہ بورڈز کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔چیئرمین بورڈ نے مزید بتایا کہ جب لاکھوں طلبہ کے امتحانات میں شرکت کے انتظامات کے حوالے سے ان سے دریافت کیا گیا تو اس ادارے کے پاس کوئی پیشگی ہوم ورک نہیں تھا جس پر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا کہنا تھا کہ کچھ ایسا کریں کہ آزمائشی طور پر انھیں کسی ایک فیکلٹی کے امتحانات دے دیے جائیں یا پھر جن بورڈز کے پاس طلبہ کا والیوم کم ہے وہ امتحانات ان کےحوالے کریں۔واضح رہے کہ ابھی اس اجلاس کو قریب دو ہفتے ہی ہوئے تھے کہ محکمہ نے بورڈز کو لکھ کربھیجا کہ وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے منظوری دے دی ہے لہذا امتحانات آؤٹ سروس کردیے جائیں جس پر تمام چیئرمینز و کنٹرولر حیران رہ گئے۔اندرون سندھ کے ایک چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہمارے ایکٹ میں ایسی گنجائش موجود نہیں کہ ہم امتحانات کو نجی پارٹی کے حوالے کریں یا پھر آؤٹ سروس کردیں۔
ایک سوال کے جواب میں مذکورہ چیئرمین کا کہنا تھا کہ بین السطور میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ کوئی اور کمپنی تو شاہد ٹینڈر میں نہ آئے لہذا ٹینڈر بھی یہی لوگ لے جائیں گے، مذکورہ چیئرمین نے سوال کیا کہ کیا اگر پولیس کا محکمہ صحیح کام نہیں کرے گا یا کرپشن کرے تو کیا صوبے کی سیکیورٹی کسی بھی ادارے کو سونپ دیں گے لیکن بورڈ میں ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔واضح رہے کہ یہ معاملہ بظاہر چیئرمین لاڑکانہ بورڈ نسیم میمن کے ایک خط سے شروع ہوا تھا جس میں انھوں نے محکمے کو سفارش کی تھی کہ کرپشن سے پاک امتحانات و نتائج کے لیے امتحانات آؤٹ سروس کردیے جائیں تاہم دیگر حاضر و سابق چیئرمین بورڈز کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ امتحانات کو آٹ سروس کردیا جائے۔سابق چیئرمین حیدرآباد بورڈ ڈاکٹر محمد میمن کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ “یہ پورا معاملہ نہ صرف خیال اور تصور سے باہر ہے بلکہ بورڈ کے ایکٹ کے برخلاف ہے ایسا کرنے سے پہلے بورڈ کے ایکٹ میں ترمیم لازمی ہے اس فیصلے سے پیغام جارہا ہے کہ اب خود حکومت کا اپنے اداروں پر سے اعتماد اٹھ گیا”۔ادھر معاملے پر “ایکسپریس” نے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہی سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انھوں نے ریڈ مارکر نامی کمپنی کی جانب سے امتحانات کرانے میں دلچسپی اور بریفنگ کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ایکٹ میں گنجائش نہیں ہے تو ممکن ہے آئندہ چند روز میں ایکٹ میں تبدیلی ہوجائے جس کے بعد آئی بی اے، آغا خان ، ریڈ مارکر یا کسی بھی ادارے کے ذریعے یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بورڈز میں کرپشن ہے ہر شخص ہوسٹنگ کے چکر میں لگا ہوا ہے پوزیشن فروخت ہوتی ہیں لہذا ایسا کرنا ہوگا تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ پولیس کا محکمہ کرپشن ریٹنگ میں سب سے اوپر ہے تو کہا سیکیورٹی پرائیویٹ پارٹی کو ڈی جاسکتی ہے جس پر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے”۔واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات اب وزیر اعلی سندھ کے پاس بھی نہیں ہیں بلکہ محکمہ کے وزیر ہر فیصلہ میں بااختیار ہیں اور جب سے وزارت ان کے پاس ہے کسی بھی بورڈ میں میرٹ پر اشتہار کے ذریعے کنٹرولر آف ایکزامینیشن یا سیکریٹری کا تقرر نہیں ہوسکا ہے بعض تعلیمی بورڈ میں چیئرمینز بھی ایڈہاک پر ہیں