کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ)اورنگی ٹاون میں سرکاری سرپرستی میں رہائشی، کھیل میدان، پارکس، پبلک بلڈنگز، فلاحی، رفاح عامہ کے مختص اراضی پر غیر قانونی طور پر تجارتی حیثیت میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے۔دکانیں، مارکیٹ، شادی لان، پیٹرول پمپ کے ساتھ دیگر تجارتی پلاٹوں میں مسلسل اضافہ سے اورنگی میں معاشرتی مسائل میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔سرکاری سرپرستی میں کھیل کے میدان، پارکس، کلینک، میٹرنٹی ہوم، پبلک بلڈنگز، دیگر رفاحی پلاٹوں پر رہائشی، تجارتی 30 ارب روپے مالیت کی اراضی پر قبضہ ہوچکا ہے،۔ پروجیکٹ اورنگی ٹاون کے بدعنوان افسران کی سرپرستی میں غیر قانونی الاٹمنٹ، قبضہ، لیز، سب لیز اور موٹیشن کے ساتھ تعمیرات تیزی سے جاری ہے۔ ماسٹر پلان کے نقشہ جات میں اس قدر تبدیلی کر دی گئی ہے کہ ماسٹر پلان کے ایک افسر نے ان نقشوں کو مانے سے انکار کردیا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اورنگی ٹاون میں غیر قانونی سرکاری زمینوں میں پبلک بلڈنگز پلاٹ نمبر ST-1 سیکٹر نمبر 14-A، رقبہ 0.37 ایکٹر پر تارا مال کی تیزی سے تعمیر ات جاری ہے۔ یہ اورنگی کا سب سے بڑا شاپنگ مال ہے جو غیر قانونی طریقہ سے الاٹ ہوا اور دیگر نقشہ جات کے بغیر تعمیرات جاری ہے۔ ST-4 سیکٹر 6 اورنگی قذافی چوک پر ڈاکخانے کا پلاٹ میں دکانوں کی تعمیرات تیزی سے جاری ہے۔ ST-4 سیکٹر 13-1 اورنگی،رقبہ.027 ایکٹر اراضی پر دکانیں، ST-3 سیکٹر 13-1، رقبہ 0.28ایکٹر اراضی پر شای لان، ST-1سیکٹر 13-1،پارکس کے اراضی پر امام بارگاہ بن چکا ہے، اST-2 سیکٹر 13-1پارکس رقبہ ⁷0.4 ایکٹر اراضی پر دکانیں، اور دیگر پارکس کے مختص زمینوں پر قبضہ ہونے والے پلاٹس ST-19 سیکٹر10، رقبہ 1.30 ایکٹر پارکس کی اراضی پر مکانات، دکانیں تعمیرات کرکے قبضہ ہوچکا ہے۔ ST-2 سیکٹر 12، رقبہ 1.63 ایکٹر پارکس کی اراضی،رہائشی،تجارتی بنیاد پر تعمیرات کرکے قبضہ ہوچکا ہے۔ ST-5 سی، سیکٹر 12 پارکس، ST-6 سیکٹر 12،رقبہ 1.68 ایکٹر پارکس، ST-8 سیکٹر 12پارکس، ST-9A سیکٹر 12 پارکس، ST-10A سیکٹر 12 پارکس رقبہ 1068 اسکوائر یارڈ، ST-13 سیکٹر 12رقبہ 2222 ایکٹر پارکس کی اراضی، ST-17 سیکٹر 12رقبہ 934 اسکوائریارڈ، ST-6 سیکٹر 13-B رقبہ 65 ایکٹر پارکس کی اراضی ST-2سیکٹر 13-Dرقبہ 56ایکٹرپارکس، ST-1سیکٹر13-Fرقبہ0.75ایکٹرپارکس کی اراضی،ST-2سیکٹر 13-Gرقبہ 623اسکوئریارڈ، پارکس، ST-2اسیکٹر13-Hرقبہ4420اسکوئریارڈ پارکس شامل ہیں ان میں اکثریت جعلی کاغذات جو پروجیکٹ ڈائریکٹرز نے جاری کیا ہے۔ بعض زمینوں کی لیز اور سب لیز بھی کردیا گیا ہے اور کھیل کے میدان کے پلاٹ نمبر ST-5 سیکٹر 10رقبہ 0.86 ایکڑ اراضی، اسکول کے پلاٹ نمبر ST-1 سیکٹر 1-Bرقبہ 9420 اسکوائر یارڈ پر قبضہ کرکے رہائشی و تجارتی دکانیں تعمیرات کر دی گئی ہیں۔ رفاحی مقاصد کے مختص اراضی میں ST-1 سیکٹر 7-Aرقبہ1.87اریکٹر اراضی،میٹرٹنی ہیوم کی پلاٹ نمبرST-3سیکٹر1-Dرقبہ1667اسکوئریارڈ، کلینگ کا پلاٹ نمبر ST-4سیکٹر2-Aرقبہ2511سکوئر یارڈ، میٹڑٹنی ہیوم کا پلاٹ نمبرST_10سیکٹر12رقبہ1.68ایکٹر اراضی شامل ہیں جبکہ پبلک بلڈنگز کے پلاٹس میں ST-6سیکٹر1-Aرقبہ300اسکوئریارڈ، ST-1سیکٹر1-Dرقبہ427اسکوئریارڈ، ST-12سیکٹر5رقبہ4840اسکوئریارڈ،ST-15سیکٹر5رقبہ968اسکوائریارڈ، ST-7سیکٹر8رقبہ2420اسکوئریارڈ، ST-4سیکٹر11رقبہ 2.5ایکٹر اراضی، ST-2سیکٹر12رقبہ1.2ایکٹر اراضی، ST-12سیکٹر 11رقبہ1000اسکوئریارڈ، ST-10/Bسیکٹر12رقبہ1.08ایکٹر اراضی پرسرکاری سرپرستی میں قبضہ ہوچکا ہے،پروجیکٹ ڈائریکٹر اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نگرانی میں ون ڈی بس اسٹاپ کی زمین پر 44 دکانیں بن گئی ہیں، مزید 100 دکانیں غیر قانونی تعمیر شروع کر دی گئی ہیں۔ ایک ارب مالیت کی زمین رفاہ عامہ کے مختص دو ایکٹر اراضی پر قبضے کیلیئے نہ کونسل کی قرارداد، نہ نیلام،نہ کسی ادارہ کا قبضہ تھا۔ رفاہ عامہ کے مختص دو ایکٹر سرکاری زمین 25 سال سے لینڈ مافیا قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ اب کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کیلیئے نہ بلدیہ عظمی کراچی کے کونسل نے قرارداد منظور کی اور نہ 1972ء سے خالی پلاٹ کو نیلام کیا گیا نہ کسی ادارہ یا شخص کا قبضہ تھا،لیکن اب اس پر مزید 100 دکانیں تعمیرات کی منصوبہ بندی ہے۔ تعمیرات کے لئے ایک عدالتی حکمنامہ کے بعد تعمیرات تیز ہو گئی ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر آفس بلدیہ عظمی کراچی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ساتھ ڈپٹی کمشنر، اسٹنٹ کمشنر اور پولیس نے کروڑوں روپے لیکر خاموشی خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیئے ہیں۔بلدیہ عظمی کراچی اور کراچی ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اورنگی ٹاون کے پلاٹ نمبر ST-13-14 بلدیہ عظمی کراچی کا ریزور لینڈ تھا جسے پروجیکٹ ڈائریکٹر اورنگی رضوان خان نے نیلامی کے بجائے براہ راست ایک ارب روپے مالیت کی زمین براہ راست ریگولرائز، لیز سب لیز صرف 8 سے 10 کروڑ روپے (رشوت کمیشن کک بیک)میں مشہور لینڈ گریبر جاوید عرف شیشہ والے کو الاٹ کردیا ہے۔ زمین کی حیثیت غیر قانونی تبدیل کرکے کمرشل کی گئی ہے اور 26/26 اسکوئر یارڈ کے پلاٹ پر کسی امیل گیشن کے بغیر مارکیٹ بن گئی ہے۔ اس خالی زمین پر سرکاری خزانے کو چالان کی مد میں 35/40 کروڑ روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ نقشے کے بغیر تجارتی بنیاد پر تعمیرات کے عوض ڈپٹی ڈائریکٹر اورنگی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مولوی محمد ریاض نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے دو سے تین کروڑ روپے لیکر غیر قانونی تعمیرات سے اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 10ہزار اسکوئر یارڈ رقبہ پر مشتمل زمین میں تجارتی بنیاد پر لیز یا سب لیز کر دی گئی ہے۔ اورنگی ٹاون میں چائنا کٹنگ،مالیاتی اسکینڈل میں سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان اور عقیل احمد نے ایک ایسی کی جرائم کی داستان رقم کی ہے جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اور نگی ٹاون میں سرکاری اور نجی اداروں کی رہائشی،تجارتی، فلاحی، رفاہی، کھیل کے میدان، پارکس، گرین بیلٹ،نالے،قبرستان،اورنگی کاٹیج انڈسٹری، گلشن بہار، گلشن ضیاء،بس ٹرمنیل،جرمن اسکول، عبدالحق ٹاون، تعلیمی، صحت کی زمین،جعلی ہاؤسنگ سوسائیٹز، بلڈرز اور دیگر زمینوں کی چائنا کٹنگ کی گئی ہے۔بعض آلاٹیز کو کروڑ روپے روپے مالیت کی لیز،سب لیز زمین کی جمع پونجی سے محروم کردیا گیا ہے۔ بعض الاٹیز نے عدالت سے رجوع کررکھا ہے، یونین کونسل نمبر 18کے محمد نگر اورنگی تاون میں ST-12,ST-13,ST-14,ST-3,ST-13/11Eکی جعلی کاغذات پرچائنا کٹنگ کردی گئی ہے۔ ان پلاتوں کو 2009 میں ایک بڑے آپریشن کے بعد خالی کرایا گیا تھا۔ اورنگی ٹاون پلاٹ نمبر ایس ٹی ون، سیکٹر 11-H اور ST-14 to ST-34،کے رفلاہی پلاٹس کو تجارٹی بنیاد پر فروخت کردی گئی ہے۔ سابق ڈائریکٹر رضوان خان کے کارندے اورنگی ٹاون سیکٹر 11 1/2غازی آباد شیٹ 7نزد بسمہ اللہ چوک مارکیٹ نیو قطرانڈر کنسٹریشن ہاسپٹل کے نام پر سرکاری زمین کی فروخت جاری ہے۔ گلشن بہار سیکٹر 14,15,16سیکٹر ساڑھے گیارہ اقبال مارکیٹ، سیکٹر گیارہ ای، اورنگی ٹاون نمبر 1،قذافی چوک، اورنگی سیکٹر6/7 بنارسی ٹاون، گلشن ضیاء مومن آباد، مجاہدآباد، فرنٹینر کالونی،بنارس چھ، سیکٹر ای او نائن آئی، اورنگی سیکڑ سیون کے نالے پر میں موجود سرکاری اورنجی پلاٹس کو جعلی کاغذات پر الاٹمنٹ اور لیز کرکے چائنا کٹنگ کی گئی ہے۔غیر قانونی شادی ہال،فیکٹری گودام، بینک، موبائل مارکیٹ نجی اسکول، نجی ہسپتال، پیٹرول پمپ، تارا موبائل مال تار پاری مال سمیٹ دیگر پلاٹس کی جانچ پڑتال کے دوران بڑے پیمانے پرجعلی سازی کی گئی۔اس غیر قانونی کام میں بلدیہ عظمی کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مشترکہ طور پر شامل ہیں۔سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزاماں خان نے کہا ہے کہ عوام کا سرکاری ادارے پر اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اتنے بڑے میگا اسکینڈل کی تحقیقات سندھ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں کرائی جائے ورنہ عوام کے نزدیک حکومت سندھ اس میں لازمی شامل ہو گی۔