یہ سچ ہے کہ ہندوستان نے کبھی پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا ہے اور نہ ہی کرے گا ۔۔۔ وقتی ضرورت کے تحت اور مصلحتاً وہ پاکستان کی تجارتی بنیادوں پہ تعریف کرتا رہتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے ہندوستان کے دل میں نفرت کی آگ اب آتش فشاں بن چکی ہے جو وقتاً فوقتآً لاوا اگلتی رہتی ہے ۔
اک حرفِ محبت ہے ،اک حرفِ کدورت ہے ۔ ہندوستان کی پاکستان سے نفرت کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں ، دنیا جانتی ہے کہ انڈیا کے دل میں ہمیشہ ہی مسلمانوں سے بغض اور نفرت کے جزبات رہے ہیں اور جب بھی انڈیا کو موقع ملا اس نے کھل کر اسکا اظہار بھی کیا ہے ۔ خود ہندوستان میں موجودہ حالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ہندوستان مسلم امہ سے کسقدر نفرت رکھتا ہے ۔کشمیر میں بھی انڈیا نے آرٹیکل ٣٧٠ لاگو کر دیا اور اس طرح مظلوم کشمیروں کے حقوق پامال کرکے اس نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں پار کر دیں ہیں ۔آج ہندوستان کی کوشش ہے کہ ہندوستان سے تمام مسلمان نکل جائیں اور انڈیا صحیح معنوں میں ہندوستان بن جائے اس کے لیے وہ اب اپنے ہی ملک کے اندر بھی انتہائ نازیبا ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ ہندوستان کی مسلم دشمنی کا اندازہ ہم ایک مہاسبھائ لیڈر کے اس جملے سے باخوبی لگا سکتے ہیں کہ "اگر آٹھ سو سال کے بعد اسپین میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹ سکتا ہے تو ہندوستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ” .اب مودی اور مودی حکومت کی پاکستان بلکہ مسلم دشمنی کسی سےڈھکی چھپی بات نہیں رہی ،یہ اب پوری دنیا جانتی ہے کہ مودی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئے گی ۔ ایک مثل مشہور ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں ، ان کا جغرافیہ اسے بھلا دیتا ہے ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے اور اپنے ملک کے دشمنوں پہ ہمیشہ نظر رکھنی چاہیے ۔ ہندوستان کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اس کے لیے اس نے گزشتہ 76 سالوں سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے ۔ آرٹیکل 370 لاگو کر کے اس نے اب کشمیریوں سے ان کے تقریباً تمام حقوق چھین لیے ہیں ۔ مودی حکومت نے دنیا کے سامنے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے پلوامہ اٹیک کا ایک خود ساختہ ڈرامہ رچایا تھا ۔ ١۵ مئ کو ٣ بجکر ١۵ منٹ پہ سرینگر سے ٢٠ کلومیٹر دور جموں ہائ وے پہ جب سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے ایک سکیورٹی کے قافلے پہ جس میں کئ گاڑیاں اور بسیں شامل تھیں کو ایک بارود سے بھری گاڑی نے ٹکر مار دی جس کے نتیجے میں ۴٠سکیورٹی اہلکار مر گئے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انڈین حکومت تحقیقات کرواتی مگر ہمیشہ کی طرح فوری طور پر الزام پاکستان پہ دھر دیا گیا اور بیان داغ دیا گیا کہ بھارت کے خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جیش محمد نامی تنظیم نے مقامی میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ یہ حملہ اس تنظیم نے کروایا ہے اور یہ تنظیم پاکستان میں موجود ہے ۔مودی حکومت نے اپنے ملکی عوام کے جزبات سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ سوچا کہ اس واقعے کو بڑھاوا دے کر وہ آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔۔۔ لہزا اس نے پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور الزام پاکستان پہ لگا دیا کہ یہ سب پاکستان کی کارستانی ہے ۔ مودی نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ "پلوامہ حملے کا جواب کیسے دینا ہے ،کب دینا ہے ،کہاں دینا ہے اور کس طرح دینا ہے ان سبھی معاملات کا فیصلہ فوج کرے گی ” اور تو اورانڈین حکومت نے یہ بھی دعوی کر ڈالا کہ پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے واضح ناقابلِ تردید ثبوت ملے ہیں ۔
پاکستان حکومت نے اس امر پہ فوری ردِ عمل ظاہر کیا اور پاکستان کے وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پلوامہ حملے کے نتیجے میں انڈیا کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو من گھڑت ،ڈرامہ اور بالکل بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملہ منظم ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا اس کا فائدہ ہمیں ہو گا یا کہ خود انڈین حکومت کو ۔مودی حکومت کو اپنی ہار واضح نظر آ رہی تھی لہزا وہ ایسا کوئ تنازع کھڑا کرنے کے لیے بیتاب تھے جس کا فائدہ اس کی حکومت کو ہو ۔
بقول شاعر
جب کریلا نیم پہ پہنچا تو کڑوا ہو گیا
جھوٹ اس نے اسقدر بولا کہ سچا ہو گیا
اس کے بعد ہندوستان نے پلوامہ اٹیک کے بدلے کا بہانہ بنا کر پاکستانی باڈر سے ملحقہ علاقوں جس میں سیالکوٹ ،نارووال اور ظفروال سیکٹر شامل ہیں پر بلا اشتعال فائرنگ اور حملے شروع کر دیئے۔۔ پاک فوج جو ہمیشہ جاگتی رہتی اور ہوشیار رہتی ہے نے جوابی کاروائیاں کیں۔ اس سے اگلے دن یعنی 31 فروری کو مظفر آباد سکیٹر میں پونچھ کے علاقے کوٹلی پہ جوکہ لائین آف کنٹرول کےبالکل پاس ہی ہے انڈین جنگی جہاز حملے کی نیت سے پہنچے۔ پاک فضائیہ جوکہ ہر وقت چوکس رہتی ہے فوری طور پر موقع پہ پہنچ گئ۔ جسے دیکھ کر انڈین جنگی جہاز دم دبا کر واپس بھاگ کھڑے ہوئے اور گھبراہٹ میں اپنا پے لوڈ بھی اسی علاقے میں پھینک گئے تاکہ وہ تیزی سے باڈر کراس کر سکیں ۔ پاک فضائیہ کی بروقت کاروائ کی بدولت پاکستان بھاری جانی و مالی نقصان سے بچ گیا ۔ پاک فضائیہ اسی وقت ان جہازوں کو مار گرا سکتی تھی مگر بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ جہازوں کا ملبہ باڈر کے پار گرے گا ،جس پہ انڈیا پاکستان پہ یہ الزام لگا سکتا ہے کہ پاک فضائیہ نے باڈر کراس کر کے انڈیا پہ حملہ کیا ہے ۔ وقت کے تقاضے کہ تحت انڈین جہازوں کو نہیں گرایا گیا فقط بھگایا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انڈین افواج اس سے سبق سیکھتیں اور مزید کسی حملے کا سوچنا اور کرنے کا ارادہ ترک کر دیتیں مگر دوسرے ہی دن 27 فروری بروز بدھ کو انڈیا نے دوبارہ دو جنگی جہاز پاکستان پہ حملے کے لیے بھیجے جس پہ پاک فضائیہ نے بروقت کاروائ کر کے دونوں جہاز مار گرائیے اور ایک پائلٹ "ابھنندن "کو زندہ گرفتار بھی کر لیا ۔ یہ دونوں جہاز پاک فضائیہ کے دو نڈرجواں پائلٹس جن کے نام ونگ کمانڈر نعمان علی خان اور سکوڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی تھے انہوں نے گرائے ’وِنگ کمانڈر نعمان علی خان نے ونگ کمانڈر ابھینندن کے مِگ 21 کو گرایا تھا ۔ جبکہ سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی نے انڈیا کے ایک دوسرے جنگی جہاز ایس یو 30 کو نشانہ بنایا تھا جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حدود میں گرا تھا۔‘
اردے جن پختہ ہوں ،نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
پاک فضائیہ کے ان جوانوں نے پاکستان کا سر فخر سے پوری دنیا کے سامنے بلند کر دیا ۔
ان تمام حالات کے دوران پاکستان حکومت ،اپوزیشن اور عوام سب متحد ہو گئے ۔ حکومت وقت نے ہر قدم اٹھاتے ہوئے اپنی عوام کو آگاہ کیا اور معاملے کو سیاسی بصیرت سے سلجھانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کی تعریف آج بھی دنیا بھر میں کی جا رہی ہے اور یوں انڈیا کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے واضح ہو گیا ۔ اس کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کئ بار ہندوستانی حکومت کو پیش کش کی کہ پاکستانی حکومت کو ثبوت پیش کئے جائیں تاکہ اگر کوئ ہمارے ملک سے غفلت ہوئ ہے تو اس کی کھلی تحقیقات ہوں ۔۔ مگر افسوس کہ ہندوستانی حکومت اب تک کوئ ایک ثبوت بھی سامنے نہیں لا سکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہےکہ وہ الزامات جو پاکستان پہ اس نےلگائے تھے وہ من گھڑت اور جھوٹ پہ مبنی بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہو گا کہ ڈرامہ تھے ۔ ہندوستان اب اپنی شرمندگی مٹانے اور دنیا کے سامنے اپنا وقار بحال کرنے کی اب تک ناکام کوششیں کر رہا ہے۔ اور وہ اسی مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کر رہا ہے ۔ اس وقت سے اب تک انڈین ٹی وی چینل اور ہندوستان کا سوشل میڈیا جھوٹ پہ مبنی پروگرامز بنا کر اور بیان بازیاں کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن انڈیا ان اوچھے ہتھکنڈوں اورڈرامہ بازی میں بھی بری طرح ناکام ہو گیا ہے ۔ دوسری طرف اس وقت کی پاکستانی حکومت ،پاکستانی فوج کی حکمتِ عملی اور عوام کا بھرپور مثبت رویہ دنیا کو یہ باور کرا گیا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام ایک پرامن اور بہادر اور ناقابلِ شکست قوم ہے ۔
یہی نہیں پاکستان نے کھلے دل کا واضح ثبوت دیتے ہوئے گرائے گئے جہاز کے زندہ بچ جانے والے شکست خوردہ پائلیٹ قیدی ” ابھینندن ” کو سب سے پہلے تو محبِ وطن پاکستانیوں سے پٹنے سے بچایا ،اس کے بعد اس کے زخموں میں مرہم لگایا ، گرما گرم چائے پلائ اور اس شکست خوردہ پائیلٹ کی زبردست خاطر داری کی اور اس کے بعداس "ابھینندن” نامی پائلٹ کو یکم مارچ کو واہگہ باڈر کے ذریعے ہندوستان حکومت کے حوالے کر دیا ۔ پاکستان کے اس مثبت رویے کو دنیا بھر میں انتہائ قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اس ساری صورتِ حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو حق پہ ہوتے ہیں وہ کبھی گھبراتے نہیں اور نہ ہی مصنوعی سہاروں کا سہارا لیتے ہیں اور یہ کہ ہمیشہ جیت سچ کی ہی ہوتی ہے اور جھوٹ ناکام ہوتا ہے ۔کیونکہ ہم ایک اللہ پہ ایمان رکھتے ہیں ، اللہ کے سوا کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں اور جہاں تک ملکی وقار و سالیمیت کا تعلق ہے ہم اس پہ کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے اور یہی ہمارے لیے سب سے اہم ہے لہزا جب بھی جنگ ہوئ چاہے وہ جو بھی دشمن ہو گا ان شاءاللہ، پاک پروردگار ہمیں ہی فتح و نصرت عنایت کرے گا ۔ آج اس واقعے کو گزرے تین سال کا عرصہ بیت گیا ہے اور حکومتِ پاکستان نے ہر سال ٢٧ فروری کو پاکستان بھر میں سرپرائز ڈے منانے کا اعلان کیا ہے ۔حکومت پاکستان کی طرف سے اس وقت کے صدر مملکت نے ٢٧ فروری والے دن بہادری کا مظاہرہ کرنے والے افسروں کو اعزازات سے نوازا ہے ان میں وِنگ کمانڈر محمد نعمان علی خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی شامل ہیں۔ ان دونوں افسران کو ان کی دلیرانہ بہادری پہ بالترتیب ستارہ جرات اور تمغۂ شجاعت کے اعزازات دیے گئے۔ پاکستانی قوم یہ دن کبھی بھول نہیں سکتی ،وہ اپنی فوج سے محبت کرتی ہے اور اپنی فوج پہ بجا طور پر فخر کرتی ہے ۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد ۔