کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کا دفاع کرنا عام شہری یا کسی وردی والے کا کام نہیں ہے، آئین کا دفاع صرف قانون ساز، انتظامیہ اور عدلیہ کو کرنا ہے،73کے آئین کو اصل صورت میں بحال کرنا ہوگا۔ یہ بات انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے منعقدہ 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے قوم کو متفقہ آئین کا تحفہ دیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ تمام پاکستانیوں پر لازم ہے کہ آئین کی پاسداری اور عمل کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا عام شہری کا کام نہیں اور نہ ہی کسی وردی والے کا کام ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ آئین کا دفاع صرف قانون ساز، انتظامیہ اور عدلیہ کو ہے، آئین میں الفاظ preserve, protect and defend ہیں، جب ہم حلف اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں،صوبائی وقومی اسمبلیوں کے اراکین اور سینیٹ کے ممبراں آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حفاظت، تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جب آپ ملکی یا صوبائی اقتدار سنبھالتے ہیں تو بھی یہ حلف اٹھاتے ہیں اور جڈیشری / ججز بھی یہ ہی حلف اٹھاتے ہیں ۔ ان تینوں کا کام ہے پاکستان کے آئین کی حفاظت، تحفظ اور دفاع کرنا، باقی سب کا کام ہے آئین پر عمل کرنا۔ ان تین کلاسز کو طاقت دینی ہے اور آئین نے ان کو طاقت دی تھی اور کس طریقے سے اس طاقت کو ختم کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب 1976 کو آئین بنا تھا تو لیجسٹیچر کی صرف تین تقاضے تھے وہ پاکستان کا شہری ہو، قومی اور صوبائی اسمبلی ممبر کیلئے 25 سال عمر مقرر تھی اور سینٹ کا ممبر بننے کے لئے 30 سال عمر مقرر کی گئی تھی۔ نااہلیت کے لئے چار تقاضے تھے، دوہری شہریت نہ ہو، اگر دماغ توازن صحیح نہ ہو، اگر آپ نادہندہ ہیں اور اگر آپ پاکستان کی خدمت میں ہیں۔اس کے بعدجب مارشل لا آیا ضیا الحق نے صرف legislature کو کمزور کرنے کے لئے 3 کوالیفکیشنز کو 7 بنا دیا۔ اب میرے ووٹرز نہیں کوئی اور فیصلہ کرتا ہے کہ میں ایماندار ہوں یا نہیں ہوں، اسلامی نظریے کا پاسدار ہوں کہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ نااہلیت صرف 4 تھیں 16 ہوگئی ہیں، جو آتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔وزیراعلی سندھ نے مزید کہا کہ 2010 سے پہلے آٹیکل 62 اور 63 اتنا زیادہ استعمال نہیں ہوا تھا، اس کے بعد تو ججز / جڈیشری حرکت میں آئی اور انہوں نے سمجھا کہ سیاستدانوں، لیجسلیچرز کو کمزور کرنے کا شاید یہی طریقہ ہے۔ 1976 کے آئین کے اندر آپ رٹرننگ آفیسر کے آگے اپنے کاغذات نامزدگی دکھاتے تھے تو اگر وہ آپ کے کاغذات کو درست قرار دیتا تھا تو اس کے خلاف کوئی اپیل تھی ہی نہیں۔ ضیا نے اس پر کاغذات منظور ہونے کے بعد بھی اپیل کرنے کیلئے ٹربیونل بٹھا دیئے۔ اس طرح لیجسلیچر کو کمزور کیا گیا اور آج ہم کمزور ہیں۔ اگر میں ایک بارمنتخب ہوجاتا ہوں تو 5 سال کی مدت ہوتی ہے۔ میرے سر پر اگر تلوارہوگی تو 4 سال 364 دنوں میں مجھے کوئی نااہل قرار دے گا۔ اور ایسا ہوتا رہا ہے چار 4 سال بعد لوگ نااہل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن آئین کیا کہتا ہےکہ ایک ہی طریقہ ہے 225 آٹیکل ہے اگر آپ نے کسی کےانتخابات چیلنج کرنے ہیں تو االیکشن لا کے تحت کرینگے، اوریجنل لاز میں 60 دنوں کے اندر اپیل دائر کرنی ہے اور ٹربیونل کو 4 مہینے ہوتے تھے، یہ کل ملا کر 6 ماہ کے بعد آپ کسی کو نااہل نہیں کرسکتے۔ اور اس میں یہ بھی تھا کہ کوئی شخص تاخیر کر رہا ہے تو جج کا اختیار تھا کہ اس کے معطل کردیں۔ 2017 میں اس کو قانونی حیثیت دی گئی کہ اب آپ صرف پیسے بھرتے رہیں اور تاخیر کرتے رہیں۔ اگر لیجسلیچر کو ڈر ہوگا کہ وہ کسی وقت بھی نااہل ہوسکتا ہے تو وہ فریلی کیسے کام کرے گا۔ اس طریقے سے لیجسلیچر کو کمزور کیا گیا۔ ایگزیکٹو کو آرٹیکل 248 کے ذریعے استثنی حاصل ہے، کہ کوئی بھی وزیراعظم، وفاقی وزیر، وزرا اعلی، صوبائی وزرا کسی کورٹ آف لا کو جوابدہ نہیں ہیں۔ مجھ سمیت میری کابینہ کے سارے لوگ کورٹ میں ہیں۔