کابل ( نیٹ نیوز)پاکستانی وزیر دفاع اور آئی ایس آئی چیف کا غیر اعلانیہ دورہ افغانستان ۔پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سطحی وفد کے اس غیر اعلانیہ دورے کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم افغانستان کے نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر کے دفتر نے تصدیق کرتے ہوئے ملاقات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی جاری کی ہیں۔افغان حکام کے مطابق پاکستان کے وزیر دفاع اور خفیہ ادارے کے سربراہ نے بدھ کو کابل کا دورہ کیا جہاں ان کی افغان نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات ہوئی ہے۔پاکستان کی جانب سے اعلیٰ سطحی وفد کے اس غیر اعلانیہ دورے کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم افغانستان کے نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر کے دفتر نے تصدیق کرتے ہوئے ملاقات کی تصاویر اور ویڈیوز بھی جاری کی ہیں وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں کابل کا دورہ کرنے والے وفد میں پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل ندیم انجم بھی شامل ہیں، جس سے بظاہر اس دورے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ مہینوں میں سرحدی کشیدگی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ملا عبدالغنی بردار کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فریقین نے دوطرفہ تعلقات، تجارت، علاقائی روابط اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا ہے۔‘
افغان نائب وزیراعظم کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’افغانستان اور پاکستان دو پڑوسی ممالک ہیں اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہیں۔‘ملا عبدالغنی بردار کا مزید کہنا تھا کہ ’ضروری ہے کہ کاروباری اور معاشی مسائل کو سیاسی اور سکیورٹی معاملات سے الگ نہ کیا جائے۔‘انہوں نے پاکستان میں قید افغان شہریوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ملا عبدالغنی بردار کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق پاکستانی وفد نے ان مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ’متعلقہ وزارتیں اور مقرر کردہ کمیٹیاں اس معاملے پر تیزی سے کام کریں گی۔‘پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد ایک ایسے وقت افغانستان پہنچا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں جس کی وجہ سرحدی علاقوں میں گشیدگی کے واقعات ہیں۔گذشتہ دسمبر میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ناظم الامور عبید الرحمن نظامانی پر ایک حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے تاہم ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار شدید زخمی ہو گیا تھا۔جب کہ دسمبر ہی میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے چمن میں مبینہ طور پر افغان سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں متعدد پاکستانیوں مارے گئے جبکہ عام شہریوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا۔پاکستان کی طرف سے فائرنگ کے اس واقعے کی نا صرف پر زور مذمت کی گئی تھی بلکہ اسلام آباد میں تعینات افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کر کے پاکستان کا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا گیا تھا۔تعلقات میں تناؤ کا ایک حالیہ واقع گذشتہ ہفتے کے اواخر میں پیش آیا جب ’طورخم بارڈر‘ کے قریب فائرنگ کے واقعے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑی تجارتی راہداری گذشتہ چند روز سے بند ہے۔وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے گذشتہ ہفتے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان پڑوسی ممالک ہیں اور ہزاروں افغان روزانہ تجارت اور معمولات زندگی کے لیے پاکستان آتے جاتے ہیں۔ممتاز زہرہ نے کہا تھا کہ پاکستان دوطرفہ تجارت اور سکیورٹی سے جڑے معاملات سمیت تمام امور پر افغانستان سے رابطے جاری رکھے گا۔طورخم کے مقام پر قائم سرحدی راستے کی بندش کے بعد دونوں جانب نا صرف ہزاروں ٹرک پھنسے ہوئے ہیں بلکہ عام لوگوں کی آمد و رفت بھی بند ہے۔پاکستان کی حکومت افغان طالبان سے یہ مطالبہ بھی کرتی آئی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو استعمال نا کرنے دےپاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ ہفتے میونخ میں سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر سلامتی سے متعلق اپنے ملک کے خدشات کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی برداری افغان طالبان حکومت کی استعداد کار کو بڑھائے۔بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ’ہمیں ان (افغان طالبان) کی استعداد کار بڑھانے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس (منظم) فوج نہیں ہے، ان کے پاس انسداد دہشت گردی فورس نہیں ہے، ان کے پاس مناسب بارڈر سکیورٹی فورس بھی نہیں ہے۔‘اس کے جواب میں افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے وزیر خارجہ بین الاقوامی کانفرنسز میں شکایات کرنے کی بجائے افغان حکومت سے براہ راست بات کریں۔‘