بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ہلاک ہونے والی خاتون اور دو بچوں کے شوہر خان محمد مری
کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ان کی بیوی کی تھی جس میں وہ قرآن مجید کو ہاتھ میں اٹھا کر یہ واسطہ دے رہی تھی کہ انہیں چھڑوایا جائے۔
بلوچستان حکومت نے بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے ایک ہی خاندان کے تین افراد کی لاشیں ملنے کے واقعے اور اس کا الزام صوبائی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبد الرحمان کھیتران پر لگنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی ہے۔بارکھان سے متصل ضلع کوہلو میں خاتون اور ان کے دو بیٹوں کی نماز جنازہ تو ادا کی گئی لیکن ان کی تدفین کی بجائے مری قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد لاشوں کو کوئٹہ لائے اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے قریب ہاکی چوک پر ان کو رکھ کر دھرنا دیا۔بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ہلاک ہونے والی خاتون اور دو بچوں کے شوہر خان محمد مری نے بی بی سے فون پر بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کی بیوی اور سات بچے 2019 سے سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں تھے جہاں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے پانچ بچے اب بھی اس نجی جیل میں قید ہیں۔خان محمد مری نے کہا کہ ان کے قبیلے کے افراد نے فیصلہ کیا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے تک کوئٹہ میں لاشوں کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جائے گا۔دوسری جانب بلوچستان کے وزیر برائے مواصلات و تعمیرات اور حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبد الرحمان کھیتران نے اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون سمیت تینوں افراد کا قتل انھوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ان کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے ایک سازش ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ ان کی کوئی نجی جیل ہے۔بارکھان پولیس کے سربراہ نور محمد بڑیچ نے کہا کہ واقعے کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔اس واقعے کی بازگشت منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دی جہاں وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا۔
خاندان کا تعلق کوہلو سے ہے جہاں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہلاک ہونے والی خاتون کی شناخت گراناز جبکہ ان کے بیٹوں کی شناخت بائیس سالہ محمد نواز اور پندرہ سالہ عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی ہے۔
بارکھان پولیس کے سربراہ نور محمد بڑیچ نے بتایا کہ ان کی لاشیں حاجی کوٹ کے علاقے میں ایک کنویں سے برآمد کی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ تینوں افراد کو گولیاں ماری گئی تھیں لیکن جائے وقوعہ سے کسی گولی کا خول نہیں ملا۔’ان کے مطابق اس سے لگتا ہے کہ تینوں افراد کو کہیں اور گولی مار کر ہلاک کیا گیا اور پھر ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں۔‘خاتون کے شوہر خان محمد مری نے اپنی بیوی اور بیٹوں کی جو تصاویر شیئر کیں ان میں خاتون کا چہرہ مسخ ہے اور چہرے سے ان کی شناخت ممکن نہیں ہے۔خان محمد مری نے بتایا کہ ہلاک کیے جانے والوں میں بائیس سالہ محمد نواز ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔’میری بیوی اور سات بچے چار سال سے سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں تھے‘
خان محمد مری نے کہا ہے کہ ان کے قبیلے کے افراد نے فیصلہ کیا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے تک کوئٹہ میں لاشوں کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جائے گا۔خان محمد مری نے بتایا کہ ان کا بنیادی تعلق کوہلو سے ہے لیکن وہ اور ان کے بچے سردار عبد الرحمان کھیتران کے ملازم ہونے کے ناطے بارکھان اور کوئٹہ میں مقیم تھے۔خان محمد مری نے الزام عائد کیا کہ 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے ان کو اپنے بیٹے انعام شاہ کے خلاف ایک کیس میں جھوٹی گواہی دینے کے لیے کہا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔’میں نے ان کو بتایا کہ میرا کام آپ کی ملازمت اور چوکیداری کرنا ہے، میں جھوٹی گواہی نہیں دے سکتا جس پر انھوں نے مجھے قتل کی دھمکی دی اور میرے بچوں کو نجی جیل میں ڈالا‘۔
خان محمد مری کا مزید الزام ہے کہ ’انھوں نے ایک کیس میں بھی مجھے نامزد کرایا جس میں مجھے گرفتار کیا گیا لیکن تین سال جیل کاٹنے کے بعد کیس سے باعزت بری ہوگیا جس کے بعد بھی وہ مجھے بلیک میل کرتا رہا کہ جھوٹی گواہی دو گے تو تمہارے بچے ملیں گے ورنہ ان کو چھوڑا جائے گا اور نہ مجھے ان سے ملنے دیا جائے گا۔‘خان محمد مری نے کہا کہ ’میں مارے جانے کی خوف سے نہ صرف بارکھان نہیں جا سکا بلکہ بلوچستان سے بھی باہر نکل گیا اور وہاں سے متعلقہ حکام اور بااثر لوگوں کو اپیل کرتا رہا کہ میرے بچوں کو سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل سے چھڑائیں لیکن نہ کسی نے میری بات سنی اور نہ میری بیوی کی فریاد کو اہمیت دی گئی۔‘’میری بیوی نے تولوگوں کو قرآن کا بھی واسطہ دیا‘چند روز قبل ایک خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ اپیل کر رہی تھی کہ انھیں اور ان کے بچوں کو سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل سے چھڑوایا جائے۔اس ویڈیو میں بھی خاتون نے سردار عبد الرحمان کھیتران پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔خان محمد مری نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ویڈیو ان کی بیوی کی تھی اور قرآن مجید کو ہاتھ میں اٹھا کر یہ واسطہ دے رہی تھی کہ انھیں چھڑوایا جائے لیکن ان کی فریاد بھی نہیں سنی گئی۔ان کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ان کی اہلیہ بہت ساری سنگین زیادتیوں کی گواہ تھیں اور ان کا ذکر انھوں نے اس ویڈیو میں بھی کیا جس کے باعث ان کے چہرے کو بھی بری طرح سے مسخ کیا گیا۔انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی ان کی بات نہیں سنی۔
میں اور میرے خاندان کے لوگ مظلوم تھے۔ ہماری فریاد کسی نے نہیں سنی جس کے باعث مجھے اور میرے خاندان کو بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔‘
چند روز قبل کوئٹہ میں مری اتحاد نامی تنظیم کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں خان محمد مری کے خاندان کے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تینوں افراد کی لاشوں کو کوہلو میں دفن کرنے کے بجائے کوئٹہ لایا گیا اور ان کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے قریب ہاکی چوک پر رکھ کر دھرنا دیا گیا۔خان محمد مری نے کہا کہ جب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک لاشوں کی تدفین نہیں کی جائے گی۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے باقی پانچ بچوں کو سردار عبدالرحمان کی نجی جیل سے بازیاب کرایا جائے ، ان کے خلاف مقدمہ قائم کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انھیں نااہل قرار دیا جائے۔انھوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ مطالبات تسلیم ہونے کے بعد ہی لاشوں کی تدفین کے علاوہ کسی سے کوئی بات چیت کریں گے۔
اس موقع پر نیو کاہان کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نبی بخش مری نے اس مبینہ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پہلے ہی خان محمد مری کے خاندان کے افراد کو بازیاب کرانے کی کوشش کی جاتی تو شاید یہ سانحہ رونما ہی نہ ہوتا
سردار عبدالرحمان کھیتران نے خان محمد مری اور مری اتحاد کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے ان پر ان افراد کے قتل کا بے بنیاد الزام عائد کیا گیا ہے۔بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد ان کی تحویل میں تھے نہ ہی ان کی کوئی نجی جیل ہے۔انھوں نے بتایا کہ جس کنویں سے ان افراد کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں وہ ان کے گھر سے ڈیڑھ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔انھوں نے استفسار کیا کہ ’اگر میں ان کو مارتا تو کیا میں ان کی لاشوں کو اپنے گھر کے قریب ہی کنویں میں پھینکتا؟‘
انھوں نے کہا کہ نہ صرف میری ساکھ بلکہ میرے علاقے کی ساکھ کو خراب کرنے کی سازش کی گئی ہے۔’ہمارے ضلع کے ایک طرف مری قبائل کا علاقہ کوہلو اور دوسری طرف بگٹی قبائل کا علاقہ ڈیرہ بگٹی ہے۔ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بدامنی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارا علاقہ پرامن ہے۔ چونکہ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بدامنی کی وجہ سے کچھ نہیں ہو رہا ہے جبکہ بارکھان میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اس لیے ایک سازش کی گئی ہے تاکہ بارکھان کو بھی بد امنی سے دوچار کیا جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ نجی جیل کا پروپیگینڈہ ان کے خلاف آج سے نہیں ہے بلکہ 2014 سے ہے۔
’جب ڈاکٹر مالک کی حکومت تھی تو مجھے اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا اور میں 2018 میں نجی جیل اور دیگر الزامات سے بری ہوا‘۔ان کے مطابق جب بھی الیکشن آتے ہیں تو ’میرے خلاف اس طرح کا پروپیگینڈہ کیا جاتا ہے اور اب 2023 میں ایک مرتبہ پھر الیکشن ہونے جا رہا ہے تو ایک مرتبہ پھر میرے خلاف سازش کرکے پروپیگینڈہ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔‘بارکھان پولیس کے سربراہ نور محمد بڑیچ نے بتایا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے ایس ایچ او کو کوہلو بھیج دیا تاکہ وہ خان محمد مری سے ملے اور ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے لیکن خان محمد مری ابھی تک سامنے نہیں آئے جس کی وجہ سے تاحال مقدمہ درج نہیں ہوا۔‘انہوں نے بتایا کہ ’ہم لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ اس حوالے سے انصاف اور قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بارکھان پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی تعیناتی کے دوران انہوں نے خود بھی ایک بار چھاپہ مارا لیکن انہیں کوئی نجی جیل نہیں ملی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی ہے۔اس واقعے کی بازگشت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دی اور کوہلو سے تعلق رکھنے والے وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری اور متعدد اراکین اسمبلی نے اس کی مذمت کی۔نصیب اللہ مری اور جے یو آئی کے رکن اسمبلی میر زابد ریکی نے اس واقعے کے خلاف اجلاس سے واک آﺅٹ بھی کیا۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے اجلاس سے خطاب کے دوران واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا نوٹیفیکیشن آج ہی جاری کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور حکومت اس واقعے پر اپنی آنکھیں بند نہیں کرے گی۔