: کراچی(نمائندہ خصوصی)
کراچی لٹریچر فیسٹول کا 14واں ایڈیشن ادب سے شغف رکھنے والوں کی بڑی تعداد کی تیسرے اور آخری روز شرکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔فیسٹول میں یک بعد دیگرے سیشنز نے سامعین کو بحث ومباحثہ اور فکر انگیز گفتگو میں بھر پور انداز میں شرکت کا موقع دیا۔ فیسٹول نے ادب، فنون اور ثقافت کا جشن منانے کا ایک ایسا شاندار موقع دیا جو بلاشبہ سامعین کے ذہنوں پر ابدی نقوش چھوڑے گا۔ رواں سال کے ایل ایف پر تبصرے کرتے ہوئے ارشد سعید حسین، مینجنگ ڈائریکٹر او یو پی نے کہا ”لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ پذیرائی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کے ایل ایف صرف ایک ایونٹ نہیں ہے بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد ملک بھر میں مطالعہ اور سیکھنے کے رویوں کو فروغ دینا ہے۔ میں اپنے مقررین، پینلسٹ اور پرفارمرز کا مشکور ہوں جنہوں نے اپنے تصورات اور خیالات سے ہمیں متاثر کرنے کیلئے دور دراز سے سفر کرکے یہاں آئے۔کراچی لٹریچر فیسٹول کے 14ویں ایڈیشن کے تیسرے روز کا آغاز دنیا بھر کے مقبول ترین کھیل کرکٹ پر بحث سے ہوا۔پینلسٹ میں مقررین بشمول لیجنڈری کرکٹر وسیم اکرم،علی خان، احمر نقوی اور حدیل عبید نے اپنی گفتگو سے سامعین کو بہت زیادہ محسور کیا۔سیشن کے نظامت کے فرائض ندیم فاروق پراچہ نے ادا کئے۔سیشن میں کرکٹ اور پاکستان کی قومی شناخت اور سیاسی منظر نامہ کے درمیان باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی۔اس سیشن میں وسیم اکرم کی کتاب”سلطان“ اور علی خان کی کتاب
”Cricket in Pakistan: Nation, Identity and Politics“ کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔
اسی دوران جیسمین ہال میں ”Faith and Intellect“ کے عنوان سے نمایاں پینل بحث ومباحثہ میں فکری گفتگو کی گئی جس کے نظامت کے فرائض غازی صلاح الدین نے ادا کئے۔پینلسٹ میں قیصر بنگالی، سید سلیم رضا اور سید شبر زیدی شامل تھے جنہوں نے اعتقاد اور علت کے درمیان ربط اور مذہبی اعمال میں عقل پر گہری گفتگوکی۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کو کے ایل ایف کو کافی توجہ دی گئی۔
"Climate Justice and Embedded Injustices” کے عنوان سے سیشن میں احمد شبر، زہا تونیو اور عافیہ سلام نے موسمیاتی تبدیلی کے کمزور طبقات پر اثرات پرروشنی ڈالی اور اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔
جیسے جیسے دن گزرتا گیا، کئی سیشنز ہوئے جن کا عنوان تھا
”Untangling South Asia“،
”Searching for Peace and Security Among Neighbours“اور ”Evolving Geopolitics: Impact on Pakistan“جس میں خطے کی پیچیدہ حرکیات پر دلچسپ بات چیت ہوئی۔ ان سیشنوں میں سیکیورٹی، اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے مسائل پر غور کیا گیا، جس سے پاکستان اور جنوبی ایشیائی خطے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں تفصیل سے آگاہی حاصل ہوئی۔
فیسٹول کے تیسرے دن کا سب سے نمایاں سیشن
”From Silver Screen to Mini Screen: Goldmine of OTT Media“ کے عنوان سے سیشن تھا جس کے نظامت کے فرائض سیفنہ دانش الہیٰ نے ادا کئے۔پینلسٹ میں فصیح باری خان اور صنم سعید شامل تھے۔پینلسٹس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ڈیجیٹل اسٹریمنگ پلیٹ فارمز خاص طور پراو ٹی ٹی پلیٹ فارمز نے مزید تخلیقی آزادی اور وسیع تر سامعین تک رسائی فراہم کرکے مواد کے تخلیق کاروں کے لیے امکانات کو بڑھایا ہے۔ انہوں نے ان پلیٹ فارمز کے ذریعے کہانی سنانے کی نئی شکلوں اور میڈیا انڈسٹری کو جمہوری بنانے کے لیے پاکستان میں موجود وسیع امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کے معروف دانشور جاوید جبار اور شمیم احمد نے ”The Equitable Tax“ پر ہونے والی گفتگو میں شرکت کی۔سیشن میں ٹیکس اصلاحات سے متعلق مسائل اور اقتصادی مساوات اور انصاف کے حصول میں اس کے ممکنہ اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی۔
انور مقصود کے طنزو مزاح کے بغیر کے ایل ایف کا مزہ پھیکا رہتا ہے۔ ”دوسری ملاقات“ کے عنوان سے سیشن میں انور مقصود اور ان کی شریک حیات عمرانہ مقصود نے کے ایل ایف کے مین گارڈن یں احمد شاہ کے ساتھ گفتگو کی۔ سامعین ان کی ہنسی مذاق اورطنز سے بھرپور لائیو گفتگو سے کافی محظوظ ہوئے جنہوں نے مزاح اورصداکار کے اپنے منفرد سٹائل کا مظاہرہ کیا۔
”Saints, Sufis and Shrines: The Mystical Landscape of Sindh“ کے عنوان سے سیشن نے لوگوں کی کافی توجہ حاصل کی۔ سیشن نے صوفی ازم کی تاریخ اور اہمیت اور سندھ کی ثقافت اور معاشرے میں اس کے اثرات پر گہری روشنی ڈالی۔ پینلسٹس نے سندھ میں ولیوں اور صوفیوں،ان کی تعلیم اور ان کے مزارات کی اہمیت پر بات چیت کی۔
شام کے وقت متعدد سیشنز منعقد کئے گئے جن میں معروف عالمی دانشوروں بشمول راشیدہ واٹس، کرشا کوپس، شیہان کاروناٹیلاکا، دامون اور سینان انتون نے شرکت کی۔
”Pakistan’s Economy: Depth and Resilience“ کے عنوان سے سیشن میں مفتاح اسماعیل اکبر زیدی، محمد اورنگزیب اور اظفر احسان نے پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز اور مواقع پر بات چیت کی۔ سیشن میں زراعت، انڈسٹری اور خدمات کے شعبوں کی صلاحیت پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ پینلسٹس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ درست پالیسیوں اور مراعات کے ساتھ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک انتہائی پرکشش مقام بن سکتا ہے، جس سے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔
اختتامی تقریب کے دوران مین گارڈن میں نوری کی شاندار پرفارمنس نے سامعین کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔علی حمزہ اور علی نور کے گانوں نے سامعین پر نشہ طاری کیا جو مدتوں تک یاد رکھا جائے گا۔