: عمومی طور پر اگر دیکھا جائے تو فرقہ سے مراد ایسے گروہ یا طبقے کے ہیں جو ایک مخصوص سوچ رکھتے ہوئے خود کو جماعت سے الگ کر لیتے ہیں یعنی فرقہ سے مراد کسی بھی مذہب، جماعت یا گروپ کا ایسا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ پہچانا جاتا ہے۔
قرآنِ کریم سورہ آل عمران آیت ١٠٣ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ
ترجمہ ” اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گھڑے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے اللہ نے تم کو بچا لیا ۔ اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیئے اپنی نشانیاں کھول کھول کے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاو۔ ”
اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ١٠۵ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ترجمہ ” تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔
ان ہی لوگوں کے لیئے بڑا عذاب ہے ۔ ”
ان دونوں قرآنی آیات کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فرقہ حرام ہے اور اللہ کا منع کردہ کام ہے اور جہنم میں جانے کا باعث ہے اور یہ بات ان قرآنی آیات کی بدولت واضح طور پہ ثابت ہوچکی ہے ۔
اسی طرح ترمزی شریف کی ایک لمبی تواتر کی حدیث شریف میں فرقوں کے بارے پیش گوئی ہے، جس کا مقصد و مطلب کا حصہ عربی متن کیساتھ لکھ رہی ہوں جس میں واضح طور پہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "لما اخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان امتہ ستفترق علی ثلاث و سبعین فرقہ کلھا فی النار الا واحدت و ھی الجماعت ۔
ترجمہ ” لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلع فرمایا کہ امتِ محمدی مستقبل میں تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ،ایک جماعت کے علاوہ دیگر تمام فرقے دوزخی ہونگے۔”
جب اصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ جماعت کونسی ہے ۔
اس پہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔۔ "جو میرے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے طریقے پر چلیں گے وہ لوگ اس جماعت سے ہیں ۔’
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کو ہر فرقہ نے صحیح حدیث سمجھ کے بھی لفظی ترجمہ غلط بیان کیا ہے ۔
یعنی لفظ جماعت کو لفظی ترجمہ میں فرقہ بتایا ہے ۔
جہاں الا واحدہ وھی الجماعت ۔۔۔ لکھا ہے تو ہم کس قانون یا صرف و نحو کے کس اصول کے تحت لفظ جماعت کے لفظی مطلب کو فرقہ مراد لیتے ہیں ؟
جب ہم "جماعت” لفظ کا لفظی ترجمہ فرقہ کے لیتے ہیں اور ایک جماعت کے بجائے ایک فرقہ کو جنتی کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نعوذ باللہ قرآن و احادیث میں ٹکراو پیدا کررہے ہیں ۔ غلط لفظی ترجمہ کر کے اور فرقوں کے بننے اور کسی ایک کے جنتی ہونے کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے فرقے بنے اور ہر فرقہ خود کو جنتی کہتا ہے اور دوسرے کو جہنمی ۔
لہذا ایک لفظی ترجمہ کہ وجہ سے انتہائ خطرناک شر پیدا ہو گیا اور بہت سے یعنی تہتر فرقے وجود میں آئے ۔
اور مسلمانوں میں ناصرف نااتفاقی و انتشار پیدا ہوا بلکہ آپس میں نفرتیں پیدا ہوئیں اور امتِ مسلمہ میں ایک دوسرے کے لیئے محبت، اخوت و بھائی چارہ جیسے تمام احساسات و جذبات ختم ہو گئے اوراس کے بجائے آپس میں لڑائ جھگڑے ، عناد ،بدذبانیاں ، خون خرابے، حسد و بغض اور نفرت جیسے احساسات و جزبات نے جنم لیا ۔
بالکل قبیلہ اوس اور خزرج کی طرز پہ جسکا ذکر آیت ١٠٣ سورہ آل عمران کی تفسیر ابن کثیر میں روایت ہے کہ
” یہ صدیوں آپس میں لڑتے جنگیں کرتے اور قتل کرتے تھے ایک دوسرے کے دشمن تھے ۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں صلح کروائی اور یہ بھائی بھائی بن گئے ۔
لیکن یہودیوں کو ان کی صلح اور آپس میں محبت ایک آنکھ نہ بھائی اوریہودیوں نے ان کی محفلوں میں شاطر اور ذہین یہودیوں کو بھیجا جو شاعری کے ذریعے سے ان کی پرانی دشمنیوں کی یاد تازہ کرتے تھے اوران کے نام لے لے کر جو قتل ہوئے ان کو شاعری میں اس طرح یاد کیا کہ ان کے اندر دوبارہ نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکا دی جس کی وجہ سے یہ دو قبیلے اوس اور خزرج پھر سے جنگ کی تیاریوں میں لگ گئے اور قریب تھا کہ پھر سے زمانہ جاہلیت کی طرح ایک دوسرے کا قتلِ عام شروع کردیتے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو وہ ان کے بیچ پہنچے اور سب کو دوبارہ ٹھنڈا کیا اور یہ یہودیوں کے وار سے بچ گئے اور پھر سے محبت سے رہنے لگے ۔”
ایک اور جگہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
"ان الله لا يجمع أمتی (أو قال امة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد الله مع الجماعة، ومن شذ شذ الی النار.
ترجمہ۔۔
"اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ (تعالی کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف ہوا۔”
ان چند آیات اور احادیث کی تفسیر بیان کرنے مقصد امتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باور کرنا ہے کہ لفظی ترجمہ کو صحیح طور پہ نہ سمجھنے سے ہم فرقہ بندی کی طرف آ گئے اور آج یہ حال ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو جماعت سمجھتا ہے اور استغفراللہ باقی مسلمانوں کو فرقے میں بٹا ہوا جان کر جہنمی گردانتا ہے اور واحد خود کو جنتی کہلواتا ہے ۔۔۔
نیچے سورہ فصیلت کی چند آیات بیان کرتی ہوں ۔
سورہ فصیلت آیت نمبر ٣٣ میں ہے کہ
” اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے ؟ جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔”
ایک اور آیت نمبر ٣۴ سورہ فصیلت میں ہے کہ
” نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں ۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو ۔ پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسے دلی دوست ۔”
اسی طرح آیت نمبر ٣۵ سورہ فصیلت میں اللہ نے فرمایا ہے
” اور یہ بات ان ہی کو نصیب ہوتی ہے ۔ جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا ۔”
آیت نمبر ٣٦ سورہ فصیلت:-
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو۔
یقیناً وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
مندرجہ بالا سورہ فصیلت کی ۴ آیات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بے شک علماء کرام قابلِ احترام ہیں اور بے شک عالماء ہم سب کے لیئے اسلامی علوم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں ان سب کو یہ بتانا ہے کہ آپس میں نرمی ،حسنِ اخلاق سے اور صبر و برداشت سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کی بات سنیں ، رائے سنیں اور ذاتی مفادات یا انا کے مسائل سے بالاتر ہو کے حق بات کو پھیلائیں کیونکہ وہ عالمِ دین ہونے کے باعث ہم سب کے لیے انتہائ قابلِ احترام ہیں اور حق بات عوام تک بہترین انداز میں پہنچ سکتے ہیں اور یوں پوری امت ایک جماعت ہو سکتی ہے اور پھر متحد ہو کر ایک مضبوط قوت بن سکتی ہے ۔ علماءحضرات حدیث ترمذی شریف کے لفظی مطلب میں جو غلط فہمی ہے اگردرست کر کے درست طریقے سے عوام تک پہنچائیں تو بہت سے فرقے ختم ہو سکتے ہیں اور مسلم اتحاد صحیح معنوں میں قائم ہو سکتا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دوبارہ دہرائیں کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس اور خزرج کی دشمنی ختم کروائی تھی ۔
امید کرتی ہوں تمام علماء کرام جو کہ یقیناً رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کا ذریعہ ہیں وہ اسے اپنے عمل سے ثابت بھی کریں گے ۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا،
ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہونگی ،
ان کے علماء آسمان تلے بدترین لوگ ہونگے،
ان کے پاس سے فتنے ظاہر ہونگے اور انہیں میں لوٹ جائیں گے۔ ”
اس حدیث کا یہاں ذکر کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایسے فتنے علماء میں سے ظاہر ہونے تھے سو ہوگئے یعنی فرقے بن گئے سوچ سمجھ گے یا بغیر سوچے سمجھے ، لیکن اس حدیث میں اگلی بات جو انتہائ فکرانگیز ہے یہ بتائی گئی ہے کہ علماء میں فتنے لوٹ جائیں گے۔
لہذا اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ عظیم یعنی فرقہ بندی صرف اور صرف علماء ہی اپنی محنت و سوچ، غور و فکر اور انصاف سے درست کر سکتے ہیں یہی واحد طریقہ ہے جس سے عوام میں فرقہ واریت مکمل طور پہ ختم ہو جائے گی یعنی اوپر سے سپلائی رکے گی تو نتیجے میں فرقہ پرستی خود بخود ختم ہو جائے گی ۔
جنہوں نے یہ فرقہ پیدا کیا اور جنہوں نے اس کو پھیلایا اسے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی کا خطاب دیا اور
لیکن جن میں لوٹ جائے گا وہ یقیناً بہترین علماء ہونگے ۔ ان شآءاللہ
یقیناً آپ (علما) بہترین لوگ اس نیک کارِ خیر سے محروم رہنا پسند نہیں فرمائیں گے ۔ اللہ ہم سب کو راہِ مستقیم پہ رکھے اور امتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرقہ واریت جیسی بری لعنت سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین ۔