کراچی (کامرس رپورٹر ) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اپنے دیرینہ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملائیشیا کے ساتھ دوطرفہ تجارتی خسارہ پچھلے کئی سالوں سے 1 بلین ڈالر سالانہ سے زائد ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان نئے فر ی ٹر یڈ ایگریمنٹ(FTA) کے مذاکرات کے دوران اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی پاکستانی مصنوعات ایسی ہیں کہ جو صرف پیکیجنگ اور برانڈنگ کے بعد تیسرے ممالک کے ذریعے ملائیشیا کو برآمد کی جاتی ہیں؛ جیسے کہ پاکستان کی عالمی معیار کی سرجیکل اور کھیلوں کی مصنوعات۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح پاکستانی پروڈیوسر قیمتی ویلیو ایڈیشن اور ریونیو سے محروم رہ جاتے ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے بتایا کہ ایف پی سی سی آئی کی ٹیم نے ملائیشیا کے قونصل جنرلHerman Hardynata Bin Ahmad کے فیڈریشن ہاؤس کے دورے کے موقع پر ان منطقی اور ضروری سیکٹرز کے لیے رعایتوں پر تبادلہ خیال کیا کہ جنہیں ایف ٹی اے میں شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ ایف ٹی اے 15 سال سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے اور اس پر نظرثانی و توسیع کی اشد ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ موجودہ حالات میں اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی شبیر منشاء نے زور دیا کہ ٹی آئی آر (TIR)کنونشن میں پاکستان کی شمولیت کے بعد پاکستان نے زمینی راستوں کے ذریعے سینٹرل ایشین ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دی ہے؛جو نہ صرف وقت کی بچت کرتا ہے بلکہ سامان کی نقل و حمل کی لاگت کو نصف سے بھی کم کر دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ملائیشیا کو اپنی دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے TIR کنونشن اور ٹرانزٹ ٹریڈ روٹس کے استعمال کے امکانات کو اسٹڈی کرنا چاہیے۔ شبیر منشاء نے ملائیشیا کے قونصل جنرل سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے آسیان کے اہم تجارتی اتحاد میں پاکستان کو ایک شعبہ جاتی ڈائیلاگ پارٹنر کی موجودہ حیثیت سے مکمل ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے قونصل جنرل کو آگاہ کیا کہ وزارت تجارت نے ملائیشیا کے ساتھ ایف ٹی اے کے جائزہ کے عمل میں ایف پی سی سی آئی سے اس کی آراء، تجاویز اور سفارشات طلب کی ہیں؛ جس ایف ٹی اے پر نومبر 2007 میں دستخط ہو ئے تھے اور اب اس پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ایف پی سی سی آئی کی پاکستان ملائیشیا بزنس کونسل (PMBC) کے چیئرمین بشیر جان محمد نے سیشن کو آگاہ کیا کہ مختلف پابندیوں کی وجہ سے ملائیشیا سے پاکستان کو پام آئل کی درآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے اور اس میں سرفہرست کروڈ پام آئل (CPO) پر ملا ئیشیا کی جانب سے 3 سے 8 فیصد ایکسپورٹ ڈیوٹی کا نفاذ ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان اور ملائیشیا کے بڑے شہروں کے درمیان براہ راست پروازیں پھلوں اور سبزیوں جیسی تازہ مصنوعات کی برآمدات کو ممکن بنا سکتی ہیں۔ ملائیشیا کے قونصل جنرل Herman Hardynata Bin Ahmadنے اتفاق کیا کہ لاجسٹک رکاوٹیں،براہ راست پروازوں کی کمی اوربز نس ٹو بزنس سرگرمیاں ناکافی ہیں؛اور وہ ان کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی کاروباری برادری سے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایف پی سی سی آئی کو یہ بھی یقین دلایا کہ ملائیشیا ایف ٹی اے پر نظرثانی کے عمل کے تحت پاکستان کی طرف سے درخواست کردہ دس اہم مصنوعات کو ڈیوٹی میں رعایت یا چھوٹ دینے کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا کو اپنی ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے چاول، پنک سالٹ، آلات جراحی، چکن و انڈے اور دیگر حلال فوڈز کو درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔