اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ مزاروں پر کروڑوں روپے کی آمدن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اکانٹس کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے سلسلے میں جلد اسکروٹنی کے لیے پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں ڈی جی الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کی اسکروٹنی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کام فاسٹ ٹریک پر ہے یا سلو ٹریک پر؟ جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ لاکھوں ٹرانزیکشنز کا معاملہ ہے، جسے اسکروٹنی کمیٹی دیکھ رہی ہے۔وکیلِ پٹیشنر نے کہا کہ ہم امتیازی سلوک کے خلاف عدالت آئے ہیں۔ جب سب جماعتوں کی اسکروٹنی کا پراسس ایک ساتھ شروع ہوا تو باقیوں کے لیے وقت کیوں لگ رہا ہے؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ہم ان کے لیے کوئی ٹائم فریم مقرر کریں؟، جس پر ڈی جی الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے خلاف شکایت آئی تھی، جس پر معاملہ شروع ہوا۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کا معاملہ اسکروٹنی کمیٹی کے پاس ہے۔ 17 سیاسی جماعتوں کا معاملہ الیکشن کمیشن خود دیکھ رہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارٹیوں کے لیے آنے والی فنڈنگ پر تو ٹیکس بھی ادا نہیں ہوتا ناں؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارٹی فنڈز پر ٹیکس نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں اکانومی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ کوئی شخص اگر ایک کروڑ کا چیک دیتا ہے تو کیا وہ اس رقم پر ٹیکس ری بیٹ لیتا ہے؟۔ ہمارے ہاں مزاروں کی آمدن کروڑوں میں ہے جس کا کوئی حساب کتاب بھی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل میں یہ ساری چیزیں آنی ہیں، آپ کو مستقل کسی چارٹرڈ اکانٹنٹ کو ہائر کرنا چاہیے جو یہ معاملات دیکھے۔ ایف اے ٹی ایف کے بعد اب آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ بھی ہے کہ اکانومی ڈاکومنٹیڈ ہونی چاہیے۔ فیصل آباد میں آج بھی کروڑوں کا بزنس پرچیوں پر ہو رہا ہے۔ کراچی میں بھی ٹریڈنگ ساری ایسی ہو رہی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ملک میں ایک متوازی اکانومی بھی ہے جو زیادہ مضبوط ہے۔بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اکانٹس کی جلد اسکروٹنی کے لیے درخواست پر سماعت 2 مارچ تک ملتوی کردی۔