لندن (نیٹ نیوز)پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔ وہ دبئی کے امریکن نیشنل اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی مسلح افواج کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پرویز مشرف تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔سنہ 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد اقتدار میں آنے والے پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔گذشتہ برس جون کے مہینے میں پرویز مشرف کے اہلخانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور ان کے اعضا کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔‘پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں ان کی زندگی میں آسانی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی گئی تھی۔اہلخانہ کے مطابق سابق فوجی صدر ایمیلوئیڈوسس نامی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس بیماری میں جسم میں پروٹین کے مالیکیول ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض کے اعضائے رئیسہ متاثر ہوتے ہیں۔اکثر افراد میں اس بیماری کے بعد ایمیلوئیڈ پروٹین گردے میں بننا شروع ہوجاتے ہیں جس سے کڈنی فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے۔
ایمیلوئیڈ پروٹین اگر دل میں بننا شروع ہوجائیں تو اس سے پٹھے سخت ہوسکتے ہیں اور جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔این ایچ ایس کے مطابق ایمیلوئیڈوسس کا کوئی علاج نہیں اور ان پروٹینز کو براہ راست نکالا نہیں جا سکتا مگر ایسے طبی طریقے موجود ہیں جن میں علامات کا علاج کیا جاتا ہے یا ان پروٹینز کو جسم میں بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔پاکستان کے اب تک کے آخری فوجی آمر پرویز مشرف کی قسمت گذشتہ دو دہائیوں میں اُتار چڑھاؤ کی شکار رہی۔سنہ 1999 میں ملک میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد کے ان پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ اُن میں بچ نکلے۔ وہ مغربی دنیا اور اسلامی عسکریت پسندوں کے درمیان ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں صف اول میں کھڑے تھے۔بعدازاں ان پرغیرقانونی طور پر آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔اُن کے اقتدار کے عروج کے 20 برس بعد اُن کی غیر موجودگی میں عدالت نے انھیں آئین سے بغاوت کے جرم میں سزائے موت سُنائی تھی۔پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دِلی کے اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1947 کی تقسیمِ ہند کے بعد ان کے والدین ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔
سنہ 1964 میں انھوں نے پاکستان فوج میں کمشین حاصل کیا اور ایک لمبی ملازمت کے بعد سنہ 1998 میں نواز شریف کے دور حکومت میں انھیں چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا۔ تاہم اگلے ہی سال، 1999، انھوں نے ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔اُن کا انتخاب نواز شریف کے لیے جُوا ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے پرویز مشرف کو نسبتاً سینیئر جنرلز پر فوقیت دیتے ہوئے فوج کی کمان سونپی تھی۔نواز شریف کی مقبولیت بھی اس وقت زوال پذیر ہو رہی تھی جس کی وجہ ملک میں جاری معاشی بحران، متنازع اصلاحات اور کشمیر کا بحران تھا۔ اسی دور میں پاکستان کشمیر میں کچھ علاقے پر قبضے کی ایک ناکام کوشش پر شرمندہ تھا، اور فوج سارا الزام اپنے سر لینا نہیں چاہتی تھی۔ اور یہی کارگل کا معاملہ دونوں کے تعلقات کی خرابی کی بڑی وجہ بنا۔بعدازاں جب نواز شریف نے جنرل مشرف کو تبدیل کرنا چاہا تو انھوں نے انتہائی ہوشیاری سے اپنی فوجی طاقت کے بل پر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ان کے اقتدار کا پانسہ اس وقت بدلا جب 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر شدت پسندوں نے حملے کیے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور مشرف حکومت نے اس ’جنگ‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ان کا ساتھ دینے کا مطلب اُن تمام جنگجوؤں سے تصادم تھا جو القاعدہ اور طالبان کے حامی تھے جن سے تعلق کا الزام پاکستانی فوج پر طویل عرصے سے لگتا چلا آ رہا تھا۔جب سابق صدر نے جنرل پرویز مشرف کے سلیوٹ کا جواب نہیں دیا۔کیا کراچی پولیس نے جنرل مشرف کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی؟پاکستانی صدر کی حالت کو رسی پر چلنے سے تشبیہ دی جاتی تھی کیونکہ وہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف حملوں کے لیے امریکی دباؤ اور ملک میں امریکہ مخالف اسلامی اور آوازوں میں توازن بنانے کی کوشش میں لگے رہتے۔
افغانستان کا معاملہ بھی اپنی جگہ موجود تھا۔
پرویز مشرف پر نیٹو اور افغان حکومت کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے ہمدرد جنگجوؤں کی فاٹا کے راستے افغانستان میں نقل و حمل کو روکنے کی کافی کوشش نہیں کر رہے۔اُن کے ریکارڈ کے بارے میں کئی سوالات اس وقت سر اٹھانے لگے جب سنہ 2011 میں اسامہ بن لادن پاکستان میں پائے گئے جہاں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریبی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر تھے اور مشرف برسوں سے انکار کرتے رہے تھے کہ انھیں اس کے بارے میں علم تھا۔جنرل مشرف کا دور اقتدار عدلیہ کے ساتھ اُن کی کھینچا تانی سے بھی بھرپور رہا جس میں اُن کے فوجی سربراہ رہتے ہوئے صدر کے عہدے پر قائم رہنے کی خواہش کا تنازع بھی شامل تھا۔سنہ 2007 میں انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔چند مہنیوں بعد انھوں نے اسلام آباد میں لال مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کے خونی محاصرے کا حکم دے ڈالا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد مارے گئے۔ لال مسجد کے علما اور طبا پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سخت شرعی قوانین لاگو کرنے کے لیے جارحانہ مہم چلانے کا الزام تھا۔اس واقعے کے ردِعمل میں پاکستانی طالبان کی تخلیق ہوئی اور پاکستان میں شدت پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا جس میں آئندہ آنے والے برسوں میں ہزاروں عام شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے۔جب سنہ 2007 میں نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے واپس پاکستان لوٹے تو یہ مشرف دور کے خاتمے کا آغاز تھا۔سابق فوجی جنرل نے اپنا دور اقتدار بڑھانے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن فروری 2008 میں ان کی حمایت یافتہ جماعت پارلیمانی انتخابات ہار گئی۔ چھ ماہ بعد انھوں نے مواخذے سے بچنے کے لیے استعفی دے دیا اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اپنے دور اقتدار میں پرویز مشرف نے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بھی کوشش کی اور اسی سلسلے میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا معاہدہ بھی طے پایا اور ایک وقت ایسا تھا جب مسئلہ کشمیر بھی حل ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا تاہم اس وقت تک مشرف ملک میں سیاسی طور پر غیرمستحکم ہو چکے تھے۔
پرویز مشرف اگست 2008 میں منصبِ صدارت سے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے
خیال ہے کہ اپنے لندن اور دبئی میں قیام کے دوران دنیا بھر میں دیے گئے لیکچرز کے بدلے سابق صدر نے لاکھوں ڈالرز کمائے۔ لیکن انھوں نے یہ بات کبھی راز میں نہیں رکھی کہ ان کا ارادہ وطن واپس جا کر اقتدار حاصل کرنا تھا۔مارچ 2013 میں وہ ڈرامائی انداز میں پاکستان لوٹے تاکہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن ان کی واپسی گرفتاری پر منتج ہوئی۔انھیں انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ توقع کے مطابق انتخابات میں بُری طرح پِٹ گئی۔جلد ہی وہ عدالتی مقدمات میں الجھ گئے جن میں بینظیر بھٹو کو مبینہ ناکافی سکیورٹی فراہم کرنا بھی تھا۔ بینظیر بھٹو سنہ 2007 میں شدت پسندوں کی ایک کارروائی میں ہلاک ہوئی تھیں اور ان کے قتل نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ سنہ 2010 میں اقوامِ متحدہ کی ایک انکوائری میں جنرل مشرف پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سابق وزیرِ اعظم کی سکیورٹی میں ’جان بوجھ کر کوتاہی‘ برتی۔اسی برس اُن پر 2007 میں آئین معطل کرنے کے فیصلے پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔لیکن ایسا ملک جہاں ایک طویل عرصے تک فوج کی حکومت رہی ہوں وہاں یہ مقدمہ چلنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے حکومت نے سابق حکمران کا مقدمہ سننے کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی۔خصوصی عدالت میں یہ مقدمہ پانچ برس تک زیر التوا رہا مگر پھر بالآخر تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے ایک حیران کُن فیصلہ سُنایا جس میں مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی۔مگر لاہور ہائیکورٹ نے سنہ 2020 میں اُس خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی ’غیر آئینی‘ قرار دے دیا جس نے مشرف کو موت کی سزا سنائی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے مشرف مخالف فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
گذشتہ کئی برسوں مسلسل زیرعلاج رہنے کے بعد پرویز مشرف آج اپنی بیماری کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گئے۔