کراچی(نمائندہ خصوصی) کراچی میں واقع مواچھ گوٹھ میں مبینہ طور پر گیس کے اخراج سے 18افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ تحقیقات کے بعد محکمہ صحت نے اموات کی تصدیق کر دی، تاہم کہا گیا ہے کہ اموات کی وجہ اب بھی نامعلوم ہے۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران کراچی میں لیاری کے علاقے مواچ گوٹھ میں تقریبا 18 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ڈپٹی کمشنر کیماڑی مختار علی ابڑو نے بتایا کہ ہلاکتوں پر ورثا کی جانب سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی، محکمہ صحت کی شکایت پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، کمیٹی کی سربراہی اے ڈی سی کیماڑی کریں گے، کمیٹی بچوں کے ورثا سے بھی رابطہ کرے گی، یہ کمیٹی جاں بحق بچوں کی قبروں کا بھی پتہ لگائے گی۔دوسری جانب علاقے میں موجود ایک فیکٹری کے مالک کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔علاقہ مکینوں نے کہا کہ مرنے والوں میں سوجن، کھانسی اور بخار کی علامات تھیں، متاثرہ افراد محض ایک ہفتے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔مرنے والوں میں 1 ہی خاندان کے 16 افراد بھی شامل ہیں جبکہ 1 شخص کے 3 بچے اور بیوی کا بھی انتقال ہوا ہے۔ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عبدالحمید جمانی کے مطابق 10 جنوری سے 25 جنوری تک 18 پراسرار اموات رپورٹ ہوئیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ ہلاکتیں علی محمد گوٹھ، مواچھ گوٹھ یو سی 8 ڈسٹرکٹ کیماڑی میں رپورٹ ہوئیں، انتقال کرنے والے افراد کو بخار، گلے میں سوجن اور سانس میں تکلیف کی شکایت تھی۔ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کا کہنا ہے کہ بیمار افراد میں ریشز سامنے نہیں آئے، علاقہ مکینوں نے فضا میں بو کی بھی شکایت کی ہے، علاقے میں آلودگی زیادہ ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عبدالحمید جمانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں کسی کیمیکل کے باعث پھیپھڑوں کی بیماری سامنے آئی ہے، اس صورتِ حال سے انوائرمینٹل ایجنسی کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، کل سے اب تک کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔ڈپٹی ڈائریکٹر سیپا ضلع کیماڑی کامران راجپوت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایئر کوالٹی کی رپورٹ 24 گھنٹوں میں آ جائے گی۔محکمہ صحت کی گزارش پر انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی ٹیم کراچی کے علی محمد گوٹھ پہنچ گئی۔انوائرمینٹل ایجنسی کے ماہرین نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا، آلودگی اور گندگی کی جانچ کی۔ڈپٹی ڈائریکٹر سیپا منیر احمد عباسی کا کہنا ہے کہ یہاں رہائشی آبادیوں میں غیر قانونی فیکٹریاں قائم ہیں، ان فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کرنا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انوائرمینٹل سیمپل لے لیے گئے ہیں، ایئر کوالٹی کو بھی چیک کیا جا رہا ہے، جلد رپورٹ منظرِ عام پر آ جائے گی، آج سروے مکمل کرنے بعد فیکٹریوں کو سیل کیا جائے گا۔سینٹر آف کیمیکل سائسنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ ہماری فائنڈنگز تھیں کہ سویا الرجی کے سبب اموات ہوئیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد پر سویابین ڈسٹ کےشدید اثرات ہوتے ہیں، مزید تحقیقات کے لیے پیشکش کی، تاہم کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ڈائریکٹر سینٹر آف کیمیکل سائسنز ڈاکٹر اقبال چوہدری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نوعیت کی ہلاکتیں موسم، ہوا اور مختلف وجوہات کے مل جانے کے سبب ہوتی ہیں۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ون کیماڑی ذوالفقار داود پوتا نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ اطلاعات ہیں کہ یہاں کوئی چیز بن رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انوائرمنٹل ایجنسی کو سیمپل کی جانچ کر کے 24 گھنٹوں میں جواب مانگا ہے، 3 فیکٹریاں کل سیل کی تھیں، 3 آج بھی بند کر رہے ہیں۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ون کیماڑی نے بتایا کہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک مہینے پہلے فیکٹری قائم ہوئی ہے، لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہاں 18 اموات ہوئی ہیں، رات میں ہم نے فیکٹریوں کی سیمپلنگ کی، جلد رپورٹ بھی آ جائے گی۔وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ فیصل سبزواری کا اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان اموات کی وجہ سویابین نہیں، وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی رہنما، سابق وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی کا کہنا ہے کہ 2 سال قبل سندھ حکومت نے اموات کی وجہ سویابین بتائی تھی، جبکہ ہلاکت کی وجہ ایچ ٹو ایس گیس ہے۔رپورٹ کے مطابق ایچ ای جے نے اپنی تحقیقات میں سویابین ڈسٹ کو ان اموات کی ممکنہ وجہ قرار دیا تھا۔