ملتان(شِنہوا) جنوری کی ایک خوشگوارصبح تھی،جب ملتان کے ایک دوردراز علاقے کے کاشتکارمحمد سجاد اپنے کھیت میں چینی میٹھی مرچ کی پنیری کو پھلتے پھولتے دیکھ کر انتہائی خوش ہورہے تھے۔
سجاد کا کہنا تھا "یہ پودے میرے دل کے بہت قریب ہیں، ان کے پھول میں، میں اپنے ملک کی زرعی صنعت کا مستقبل دیکھ سکتا ہوں، جو میرے ان پودوں کی طرح کھلے گا جب ان پر جدید چینی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔”
2013 میں شروع کردہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود اختیارعلاقے کے شہر کاشغر سے جوڑتی ہے، سی پیک کے پہلے مرحلے میں جہاں توانائی،نقل وحمل اورصنعتی تعاون نمایاں نظر آتا ہے تو نئے مرحلے میں اسے زراعت، اور ذرائع معاش جیسے شعبوں تک توسیع دی گئی ہے۔زراعت کے شعبہ میں سی پیک تعاون کا موقع میسر آںے پر چائنہ مشینری انجینئرنگ کارپوریشن اور سیچھوان لیتونگ فوڈ گروپ نے ایک کمپنی قائم کی اور 2021 میں لال مرچ کا کنٹریکٹ فارمنگ کا منصوبہ شروع کیا ، اس منصوبے کے چھ ماڈل فارمز میں سے ایک ملتان میں واقع ہے۔ سجاد کی نرسری ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ماڈل فارمز میں سے ایک ہے جہاں کمپنی نے چینی مرچ کی اقسام کی کنٹریکٹ فارمنگ کے لیے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا، جس کا مقصد کٹائی کے بعد فصل کو واپس چین برآمد کرنا اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ حاصل کرنا ہے۔
کمپنی کے ایگزیکٹو منیجر محمد عدنان نے شِنہوا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اس کی بہتر پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مضبوط مدافعت کی وجہ سے چینی مرچ کی کاشت میں مقامی کسانوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔عدنان نے بتایا کہ مقامی مرچ کو بیماریوں کا بہت زیادہ خطرہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار اسے اگانے میں ہچکچاتے ہیں، لیکن چینی اقسام مضبوط، چننے میں آسان اور کسی مڈل مین کی شمولیت کے بغیر، کھیتوں سے براہ راست چینی کمپنیوں کو زیادہ قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں اور یہ مقامی کسانوں میں بہت مقبول ہے۔عدنان نے کہا کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں فصل کی ویلیو ایڈڈ سروسز کے لیے پرائمری اور ڈیپ پروسیسنگ یونٹس بھی قائم کیے جائیں گے، جس سے مقامی لوگوں کے لیے مزید ویلیو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
فصل کے لیے سب سے نازک وقت جنوری کا ہے کیونکہ بیج سے پودے نکل رہے ہوتے ہیں اور بیماری یا کم درجہ حرارت کی وجہ سے پودے آسانی سے سڑ جاتے ہیں۔
تاہم، پراجیکٹ کے مقامی زرعی ماہرین چینی ماہرین کے مشورے پر بوائی کے عمل کو مکمل کرتے ہیں۔شِنہوا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مرچ کی کاشت میں 27 سال کا تجربہ رکھنے والی کمپنی کے چینی ماہر زراعت ژاو جیان ہوا نے بتایاکہ انہوں نے گزشتہ برسوں میں 20 سے زائد پاکستانی زرعی تکنیکی ماہرین کو تربیت دی ہے، جو کھیتوں میں اب اپنےطور سے مدد کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہ صرف مقامی کسانوں کے لیے کاشت کی ٹیکنالوجی لا رہے ہیں بلکہ پاکستانی ماہرین زراعت کے ساتھ مل کر مرچ کی صنعت کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ٹیکنالوجی کو چینی اور پاکستانی دونوں قسم کی مرچوں کے فوائد کے ساتھ ملا کر کام کر رہے ہیں۔
کمپنی کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو منیجر محمد عرفان احمد نے شِنہوا کو بتایا کہ پودوں کی پرورش، پیوند کاری کے جدید طریقے اور فصلوں کو مناسب غذائی اجزاء فراہم کرنے جیسی بہت سی تکنیک کے کچھ ایسے طریقے ہیں جنہیں مقامی کسان پہلے اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ کاشتکاری کے ابتدائی روایتی طریقوں پر انحصار کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چینی ماہرین زراعت کی مدد سے، ہم کاشت کاروں کو مرچیں لگانے کا طریقہ اور سائنسی طریقے سے ان کی دیکھ بھال کا طریقہ بتاتے ہیں۔
احمد نے بتایا کہ مرچ کی پیداوار کا وقت عموماً جون کے قریب ہوتا ہے۔ پھر بھی، پاکستان میں جون 2022 میں قبل ازوقت شروع ہونے والے مون سون سیزن کی وجہ سے، کچھ پودے متاثر ہوئے، اس لیے نئی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے، وہ مون سون کے موسم سے بچنے کے لیے اس سال مئی میں مرچیں اتاریں گے۔شِنہوا کے ساتھ بات چیت میں، ایک کسان، محمد اعجاز نے کہا کہ اس منصوبے کے حوالے سے ان کی امیدیں بہت زیادہ ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ اس سے علاقے میں سماجی و اقتصادی بہتری آئے گی۔اعجاز نے نرسری میں مرچوں کے سرسبزپودوں کو دیکھتے ہوئے کہا کہ اس فصل کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مقامی مرچوں کےآٹھ سے دس ماہ کے برعکس اس کی پیداوار میں صرف چھ ماہ لگتے ہیں، اس لیے چینی مرچ لگا کر اور ماہرین کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے، اب ہم مرچ کی بروقت کٹائی کر سکتے ہیں اور دوسری بوائی کر سکتے ہیں۔ مقامی ماہرین اور کسانوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کا مستقبل روشن ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ کسان اس میں دلچسپی لے رہے ہیں، اور کسانوں کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ ملک کے دیگر حصوں تک پھیلے گا۔