اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) حکام الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے تیار ہے۔ماہرین کے مطابق آئین کا آرٹیکل 224 واضح ہے کہ جب قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہو گی تو 60 روز کے اندر نئے الیکشن کرائے جائیں گے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل کی صور ت میں 90 روز کے اندر انتخابات ہوں گے۔آرٹیکل 112 کے ذریعے اگر گورنر چیف منسٹر کی سمری پر دستخط نہیں کرتے تو 48 گھنٹے کے اندر اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی ، جس کے بعد چیف منسٹر کیئر ٹیکر ز کیلئے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھے گا اور دونوں طرف سے نگراں وزیر اعلیٰ کیلئے دو دو نام بھیجے جائیں گے۔تین دن کے اندر نگراں وزیر اعلیٰ پر چیف منسٹر اور اپوزیشن لیڈر کا اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائےگا، جس میں دونوں کی مساوی نمائندگی ہو گی۔پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی تین دن کی مہلت ہو گی اور 3 دن میں اگر پارلیمانی کمیٹی نے نگراں وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق نہ کیا تو حتمی فیصلے کیلئے معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر دو دن کے اندر کیئر ٹیکرز کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا ،ملک میں جاری سیاسی پولرائزیشن ظاہر کر رہی ہے کہ کیئر ٹیکرز کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو ہی کرنا پڑے گا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کسی مکالمہ آرائی کیلئے تیار نہیں۔دوسری طرف حال ہی میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ملک میں عام انتخابات کم از کم سات ماہ سے قبل نہیں ہو سکتے کیوں کہ صرف انتخابی حد بندیوں کیلئے اضافی چار ماہ درکار ہیں۔الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں، انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکتے۔ صاف اور شفاف انتخابات کروانے کیلئے اسے رواں سال اکتوبر تک کا وقت چاہیے۔سات ماہ کا وقت مانگنے کی بڑی وجہ الیکشن کمیشن نے یہ بتائی کہ اسے آبادی کے نئے تخمینے کے حساب سے نئے انتخابی حلقوں کیلئے حلقہ بندیاں کرنے کی ضرورت ہے، آئین اور الیکشن قوانین کے مطابق نئی حد بندیاں الیکشن کروانے کیلئے بنیادی قدم ہے۔انتخابی امور کے ماہرین کے مطابق ان کے خیال میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ‘ایمرجنسی انتخابات کروانے کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔