کراچی(نمائندہ خصوصی) گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہاہے کہ پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،کراچی کی قیادت ایم کیو ایم میں شامل ہونا چاہتی ہے ،مجھ سے رابطہ کیا ہے،میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ خالد مقبول صدیقی سے براہ راست رابطہ کریں، مناسب نہیں کہ میں وفاق کا نمائندہ ہوتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کروں،عنقریب عمران خان پیچھے مڑکر دیکھیں گے تو بااعتماد لوگ نظر نہیں آئیں گے،میں سبھی جماعتوں کا گورنر ہوں، اس گورنر ہاﺅس میں کوئی بھی ایسا کم نہیں ہوتا جو پچھلے ادوار میں ہوا ہے،پی ٹی آئی کے دور میں اسی گورنر ہاﺅس میں لوگوں کے گلے میں پارٹی پرچم ڈال کر ان کی شمولیتیں کرائی گئی ہیں، معیشت کے خراب حالات تو خود پی ٹی آئی چھوڑ کر گئی تھی، خان صاحب کے دور میں سات مرتبہ فنانس سیکریٹری کوتبدیل کیا گیا، تین مرتبہ خود وزیر خزانہ کو تبدیل کیا گیا، انہیں خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ معیشت کو کیسے سنبھالیں ،الطاف حسین کا معاملہ ریاست کے ساتھ ہے اور بحیثیت وفاق کا نمائندہ میں اپنی ریاست کے ساتھ کھڑا ہوں، اب ریاست جانے اور الطاف حسین صاحب جانیں۔خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گورنرسندھ نے کہاکہ بارہ ربیع الاول بروز اتوار میری گورنر شپ کا نوٹی فکیشن جاری ہوا تو میری اللہ تعالی سے دعا تھی کہ مجھ سے کوئی ایسے کام ضرور لے جو یاد رکھے جائیں اور جو سب سے اہم کام مجھے نظر آیا وہ یہ تھا کہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی ، محبت اور پیار ہو۔کامران ٹیسوری نے کہا کہ ہم نفرتوں اور قومیتوں میں اتنا بٹ چکے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت نپہیں کر رہے اور اس عدم برداشت کی وجہ سے پورے صوبے بشمول کراچی نے بہت کچھ جھیلا، جو کہ معیشت اور روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب مجرموں کا شہر بنتا جارہا ہے، اس شہر کے لوگ غریب ہوگئے ہیں ، بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، گھروں میں بجلی گیس نہیں ، سمندر کراچی میں ہے لیکن پینے کا پانی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنا روزگار کی تلاش کیلئے کراچی آنے والوں کو اس شہر نے اپنے اندر ماں کی طرح سمیٹ لیالیکن آج اس کے روڈ ٹوٹے پڑے ہیں ، جو اپنے آپ کو مسیحا کہتے تھے وہ بے اختیار نظر آرہے ہیں۔کراچی میں دوبارہ مردم شماری کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات کو مردم شماری سے نہیں جوڑاجبکہ ایم کیو ایم کی آرٹیکل 140 اے کی پٹیشن کا فیصلہ بھی آچکا ہے، مردم شماری تو بہر حال کرنی ہے اور ہونی بھی چاہئیے جب تک گنتی پوری نہیں ہوگی آپ اپنے صوبے اور شہر کیلئے وسائل نہیں لے سکتے۔لیکن بلدیاتی الیکشن کا نہ ہونا یا تاخیر کا شکار ہونا وہ حلقہ بندیوں سے جڑا ہوا ہے، اور حلقہ بندیوں کا مطالبہ پی ڈی ایم سے معاہدے کی شق نمبر سات میں موجود ہے جس میں اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتیں دوبارہ حلقہ بندیاں کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے دوستوں کا اعتراض ہے کہ ایک حلقہ 25 ہزار کا ہے تو ایک 90 ہزار لوگوں کا، تو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی یوسی کا ایک نمائندہ 90 ہزار ووٹ لے کر جیتا ہوا۔ میں نے آصف علی زرداری سے بات کی ہے، اچھے کی امید ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی حل نکلے گا۔کامران ٹیسوری نے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن میں بارہا یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور ایم کیو ایم کو یہی کہا گیا کہ آپ صوبائی حکومت سے رجوع کریں، ایم کیو ایم کے دوستوں کی پچھلے چھ مہینوں میں حکومت سندھ سے کوئی بیس سے اوپر ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ لیکن ہر بار کسی نہ کسی نکتہ پر نااتفاقی کی وجہ سے بات آگے بڑھ جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ لوگوں کے کام کرنے کیلئے ضروری ہے درست حلقہ بندیاں کی جائیں۔ہر جماعت کی جانب سے ایم کو ایم کے ساتھ وعدہ خلافی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ایم کیو ایم ہر حکومت کے ساتھ رہی لیکن ایم کیو ایم کو حکومت کبھی نہیں ملی، جب آپ کسی کا حصہ ہوتے ہیں اور آپ کے پاس اختیار نہ ہو تو آپ کو بخشش ہی ملتی ہے اور ایم کیو ایم کو بخشش ہی ملتی رہی ہے، بااختیار ہونا اور خود کی حکومت ہونے میں بڑا فرق ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کبھی ایم کیو ایم کو حکومت دی گئی تو وہ بہت اچھی کارکردی دکھا سکتے ہیں۔ لوگ آج تک بطور مئیرے مصطفی کمال کے کلام کی تعریف کرتے ہیں۔خود پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے کامران ٹیسوری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے جب مجھے گورنر کیلئے نامزد کیا تو بہت سے لوگوں نے مخالفت کی، میں نے کہا کہ دو تین مہینے میرا کام دیکھیں ، میرا عمل بتائے گا، آج سب مانتے ہیں کہ یہ صحیح فیصلہ تھا، ایم کیو ایم کا لوگوں کیلئے جو فیصلہ ہوتا ہے وہ عوامی انداز میں ہوتا ہے اور اسی لئے لوگ مجھے عوامی گورنر بھی کہنے لگے ہیں۔گورنر سندھ نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کیلئے بھی ایم کیو ایم نے نامزدگی دی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ دنوں میں کراچی آپ کو صاف اور سرسبز نظر آئے گا، سڑکیں بھی جڑ جائیں گی اور لوگوں کے دل بھی جڑیں گے۔ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک کرنے پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ میں سبھی جماعتوں کا گورنر ہوں، اس گورنر ہاﺅس میں کوئی بھی ایسا کم نہیں ہوتا جو پچھلے ادوار میں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں اسی گورنر ہاﺅس کے دفتر میں لوگوں کے گلے میں پارٹی پرچم ڈال کر ان کی شمولیتیں کرائی گئی ہیں۔ لیکن لوگوں کو اخلاقی طور پر جوڑنا ان کے درمیان پل بننا، یہ میں نے صرف ایم کیو ایم کے دھڑوں کے درمیان نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی سے بھی میری ملاقات ہوئی، پیر صاحب پگارا سے بھی تین ملاقاتیں کیں، میں نے آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور اور ایاز لطیف پلیجو سے بھی ملاقات کی۔ میں لاہور میں تھا تو میری چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی سے بھی بات ہوئی، سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات ہوئی۔کراچی میں دوبارہ ایم کیو ایم کی طاقت پر انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم کے کونسلر کے سامنے بھی کوئی جیت نہیں پاتا تھا اور آج سب ہی اس شہر میں اپنا مئیر چاہتے ہیں، اس لئے مقابلہ سخت ہوگا۔ملک کی معاشی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کامران ٹیسوری نے کہا کہ پورے پاکستان کا مسئلہ معیشت ہے اور سب اس سے پریشان ہیں، اسحاق ڈار کوشش کر رہے ہیں انہیں تھوڑا وقت دینا چاہئیے ان حالات کو سدھارنے کیلئے جو پی ٹی آئی چھوڑ کر گئی ہے۔عمران خان کی معاشی حالات پر تنقید کے بارے میں انہوں نے کہا کہ معیشت کے خراب حالات تو خود پی ٹی آئی چھوڑ کر گئی تھی، خان صاحب کے دور میں سات مرتبہ فنانس سیکریٹری کوتبدیل کیا گیا، تین مرتبہ خود وزیر خزانہ کو تبدیل کیا گیا، انہیں خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ معیشت کو کیسے سنبھالیں اور انہوں نے خود اس کا کئی دفعہ اعتراف بھی کیا کہ ہم تیار نہیں تھے۔ تو پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت پہلے ہی نازک حالات سے گزر رہی ہو وہاں اگر اناڑیوں کے ہاتھ میں جو خود کو کھلاڑی سمجھتے تھے معیشت دے دی اور انہوں نے برا حال کردیا۔ اب کسی بھی بگڑی ہوئی چیز جو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہو اسے ٹھیک کرنا مشکل لگتا ہے ، لیکن کوشش ہے کہ اس بگاڑ کو سدھار میں بدلا جائے۔توانائی پالیسی اور بازار جلد بند کرنے کے وفاقی فیصلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پر فیصلہ تاجروں سے لینا چاہئیے، فیصلہ کرنے سے پہلے ان سے مشاورت اور افہام و تفہیم کرنی چاہئیے، سب محب وطن پاکستانی ہیں کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ایسی چیز کرے جس سے ملک کو نقصان ہو، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کا کوئی بھی تاجر ایسا ہوگا جو ملک کی مشکلات کو بڑھائے بلکہ وہ کوشش کرے گا ان اقدامات کا حصہ بنے جو ان مشکلات کو حل کرسکیں۔