کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہائوس میں ایپکس کمیٹی کے 28 ویں اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے حوالے سے مختلف ایجنسیوں کے پیش کردہ انٹیلی جنس رپورٹ کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیاگیا کہ ہر قسم کے خطرے ، دہشتگردی، منشیات کی فروخت، اسٹریٹ کرائم اور کچے کے علاقوں میں آباد ڈاکوئوں کے خاتمے کے لیے انٹیلی جنس بنیادوں پرسخت آپریشن کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ تینوں آئی جی پیز سندھ، پنجاب اور بلوچستان مل کر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا مکمل منصوبہ بنائیں گے جس کے لیے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کا ساتھ دیں گے۔ ڈاکووں کے خلاف آپریشن کوفیصلہ کن بنانا ہے اور ان کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہے۔اجلاس میں صوبائی وزراء ناصر حسین شاہ، شرجیل میمن، مرتضیٰ وہاب، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت، ڈی جی رینجرز میجر جنرل اظہر وقاص، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، کمشنر کراچی اقبال میمن، سیکریٹری داخلہ سعید منگنیجو،وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری فیاض جتوئی، ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اوڈھو، ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ خادم رند، پراسیکیوٹر جنرل سندھ، انٹیلی جنس ایجنسیز کے صوبائی سربراہان اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔اجلاس کے آغاز میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے بات چیت کی گئی ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سی پی ایل سی نے 2022 کے دوران اسٹریٹ کرائم کے 85,000 کیسز رپورٹ کیے اور آئی جی پولیس غلام نبی سے کہا کہ وہ اس حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دیں۔آئی جی نے کہا کہ 4 قسم کے جرائم جیسے موٹر سائیکل چھیننا، کار چھیننا، موبائل چھیننا اور ڈکیتی کی وارداتیں اسٹریٹ کرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سال 2022 میں اسٹریٹ کرائم کے 85000 کیسز کا مطلب یہ ہوا کہ شہر میں ہر ماہ 7000 کیسز ہو رہے ہیں۔ اگر 7000 کیسز کو ایک مہینے یا 30.5 دنوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر 229 کیسز بنتی ہے۔ اسی طرح یومیہ 229 یا 230 کیسز کو شہر کے 108 تھانوں کے ساتھ تقسیم کیا گیا ہے جس میں فی تھانہ یومیہ جرائم کی شرح 2.1 بنتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 50 فیصد موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں شامل ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ شہر میں ہر روز ایک اسٹریٹ کرائم وقوع پذیر ہورہا ہے۔غلام نبی میمن نے اجلاس کو بتایا کہ 2022 کے دوران پولیس نے 2258 انکائونٹر کیے، 1259 گینگز کا قلع قمع کیا، 16621 ڈاکوؤں/دہشت گردوں کو گرفتار کیا اور 204 کو ہلاک کیا۔
اسٹریٹ کرمنلز کی رہائی:آئی جی سندھ نے عادی مجرموں اور اسٹریٹ کرمنلز کی رہائی کے حوالے سے اپیکس کمیٹی کوبتایا کہ 1655 کرمنلز ایسے ہیں جنہیں حال ہی میں اسٹریٹ کرائم کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا لیکن انہیں ان کی گرفتاری کے بعد ایک ہفتے سے چھ مہینے کے اندر ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہفتے میں 8 کرمنلز کو، دو ہفتوں میں 26، ایک ماہ میں 107، تین ماہ میں352، چھ ماہ میں 470 اور چھ ماہ سے زیادہ کے عرصے میں 692 مجرموں کی رہائی عمل میں لائی جاچکی ہے۔اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب سے سندھ ہیبیچوئل آفنڈرز مانیٹرنگ بل 2021 کی منظوری کے حوالے سے پوچھا۔ مرتضیٰ وہاب نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ بل قواعد کے مطابق عوامی رائے جاننے کے لیے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھجوا دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ قانون کی منظوری کے بعد عادی/بار بارپکڑے جانے والے مجرموں کو ای ٹیگ کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ قانون کواس پر عملی اقدام کو تیز کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں کچی آبادیوں میں متواتر کومبنگ آپریشنز کے ذریعے اس لعنت کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی حکمت عملی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا،پیک آورز کے دوران اسنیپ چیکنگ جاری رکھنے، اشتہاری مجرموں ، مفرور افراد کے خلاف کارروائیاں اور ضمانت یافتہ مجرموں اور بار بار گرفتارمجرموں کی نگرانی اوران کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈاکو: آئی جی پولیس نے اجلاس کو کچے کے علاقوں میں جرائم کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کچے کے علاقے ناقابل رسائی ہونے کی وجہ سے مجرموں کی روایتی محفوظ پناہ گاہ ہیں۔ جرائم پیشہ افراد خاص طور پر اپنے آپ کودریائے سندھ کے چھوٹے جزیروں میں چھپاتے ہیں جو پولیس کے لیے نوگو ایریاز ہیں۔ یہ مجرمان ان ٹھکانوں کو چھپنے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اغوا کی وارداتوں کی صورت میں پولیس کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اغوا کاروں کی رہائی کے لیے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس سے بدنامی ہوتی ہے جس سے ڈاکوؤں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں دونوں طرف سے جانی نقصان ہوتا ہے اور مجرموں کی طرف سے پرتشددانتقامی کارروائی ہوتی ہے۔اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ پنجاب اور بلوچستان کے آئی جیز کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں اور ڈاکوؤں کے خلاف منظم آپریشن شروع کرنے کے لیے تفصیلی لائحہ عمل مرتب کریں۔ کور کمانڈر نے کہا کہ آپریشن میں فوج اور رینجرز بھی پولیس کی مدد کریں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آپریشن اتنی شدت سے ہو کہ ڈاکوؤں کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔سیکرٹری داخلہ سعید منگنیجو نے اجلاس کو بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے حال ہی میں 275 ڈاکوؤں کی گرفتاری کے لیے ان پر ہیڈ منی (سرکی قیمت) 465 ملین روپے رکھی ہے جس سے ان کی گرفتاری یا ہلاکت میں معاونت ملے گی ۔
منشیات فروش: ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید اوڈھو نے اجلاس کو بتایا کہ رینجرز، آئی بی اور اسپیشل برانچ کی مدد سے شہر میں 735 منشیات فروشوں کی فہرست کو حتمی شکل دی گئی ہے، جن میں سے 431 کوگرفتار، 333 جیلوں میں، 98 ضمانت پر اور 304 مفرور ہیں۔اسی طرح حیدرآباد میں 376 منشیات فروشوں میں سے 212 گرفتار کیے گئے، 91 جیلوں میں، 121 ضمانت پر اور 164 مفرور ہیں۔ میرپورخاص اور شہید بینظیر آباد میں رینجرز نے 107 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا، 80 کاقلع قمع کیاگیا، 47 کو جیل بھیج دیا گیا، 33 ضمانت پر اور 27 مفرور ہیں۔سکھر اور لاڑکانہ کے علاقوں میں 1620 منشیات فروشوں میں سے 854 کو گرفتار کیا گیا، 518 کو جیل بھیج دیا گیا، 273 کو ضمانت ملی اور 766 مفرور ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے ڈی جی رینجرز اور آئی جی پولیس کو منشیات فروشوں کے خلاف موثر آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔ ڈی جی رینجرز نے بھی اپنی پریزنٹیشن پیش کی جس میں انہوں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف رینجر کی کارروائیوں پر تبادلہ خیال کیا۔
دہشت گردی: اجلاس میں اسلام آباد میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے دہشت گردی کے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور شہر میں انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کو مزید موثر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تمام ایجنسیاں اپنی انٹیلی جنس معلومات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گی اور آپریشن میں ایک دوسرے کی مدد کریں گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کیا جائے گا۔بلدیاتی انتخابات: وزیراعلیٰ سندھ کو 15 جنوری 2023 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پولیس کی تعیناتی کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔پولینگ اسٹیشنوں کی تعداد 4995 ہو گی جہاں 25340 پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ 2728 عمارتوں کی حفاظت کے لیے کوئیک ریسپانس فورس (QRF) کو تفویض کیا جائے گا ۔ ایک کیو آر ایف کو 10 عمارتوں کی حفاظت کے لیے دو پولیس موبائل اور 14 پولیس اہلکار دیے جائیں گے۔273 کیو آر ایف یونٹس میں 564 موبائل اور 2833 پولیس اہلکاروں کو فوری ایکشن کے لیے تیار رکھا جائےگا۔ اس کے علاوہ 257 اہلکار پر مشتمل ریزرو فورس ہوگی۔