کراچی(خصوصی رپورٹ) قومی ادارہ برائے امراض قلب(NICVD)اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود عوام سہولیات دینےسےقاصر ہو گیا ۔مالی بے ضابطگیوں ‘میرٹ کو نظر انداز کرنے’تقرریوں پر ذاتی پسند و ناپسند کے بے جا عمل دخل’غیر ضروری تعیناتیوں اور سفارش کلچر کے باعث تباہی کے دہانے پہنچ گیا۔أپریشن بند’مریضوں کو أٹھ ماہ بعد کی تاریخیں دی جانے لگیں۔وزارت صحت اور سندھ حکومت بھی خاموش تماشائ بن گئ۔باوثوق ذرائع سے موصول اطلاعات کے مطابق قومی ادارہ براۓ امراض قلب ذاتی خواہشات اور بدترین اقربا پروری کے سبب تباہی کی جانب گامزن ہے۔لاکھوں روپوں کی تنخواہیں اور مراعات لینے والوں کی کارکردگی صفر ہے۔ اپنا ایک معیار اور ساکھ رکھنے والا قومی ادارہ کرپشن کی نذر ہورہا ہے۔مصدقہ اطلاعات ہیں کہ أپریشن بند ہوچکے ہیں اور سب اچھا کی رپورٹ دینے کے لئے گنتی پوری کی جاتی ہے جبکہ صورتحال انتہائ گھمبیر ہو چکی ہے۔ذرائع کے مطابق قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور افسران کی ملی بھگت سے سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ادارے میں ذاتی پسند کا اتنا خیال رکھا جارہا ہے کہ ماضی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ذرائع کا بتانا ہے کہ سفارش کلچر نے اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلی ہیں کہ وزارت صحت اور خصوصا حکومت سندھ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئ ہے۔وزارت صحت کی أنکھوں کے سامنے تمام بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں ہورہی ہیں۔ذرائع کا بتانا ہے کہ ادارے کے سربراہ ڈاکٹر ندیم قمر قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں ہونے والی ہوشربا کرپشن’مالی بے ضابطگیوں ‘میرٹ کے قتل عام اور ادارے کو کروڑوں کا نقصان پہنچانے کے باعث ہی نیب کے ریڈار پر ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ندیم قمر نے تقرریوں میں بدترین اقربا پروری کا مظاہرہ کیا ‘ادارے میں” بے جا اور غیر ضروری” تعیناتیوں ‘بے وجہ غیر ملکی دوروں پر کروڑوں کے اخراجات کیۓاور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔قومی ادارہ براے امراض قلب میں ایک نجی اسپتال سے أکر چیف فنانس أفیسر بننے والے "فیصل ستار” نے ادارے میں قدم رکھتے ہی نت نئے اقدامات کرنے کا بیڑہ اٹھالیااور ان اقدامات کے باعث سب سے پہلے قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں پاکستان بھر سے أنے والے مریض اس کا شکار ہوۓ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ادارے کے کرتا دھرتاؤں کی سب اچھا ہے کی رپورٹ کے باوجود”سب اچھا نہیں ہے” اور وزارت صحت اس سے بخوبی أگاہ ہے۔ادارے میں مستحق’نادار مریضوں کے أپریشن نہیں ہورہے اور ٹال مٹول کی جارہی ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ "فیصل ستار”جس نجی اسپتال سے أۓ ہیں وہ قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں أنے والے مریضوں کو اس نجی اسپتال جانے کا کہہ رہیں ہیں۔ذرائع کے مطابق بطور چیف فنانس أفیسر قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں انکی تقرری پر بھی سوالیہ نشان ہیں انہیں کیا گریڈ ملنا چاہیئے تھا اور کس گریڈ میں تقرری ہوئ ہے اس پر بھی انتظامیہ خاموش ہے۔ جب چیف فنانس أفیسر فیصل ستار سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے یہ استفسار کیا گیا کہ قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں أپریشن نہیں ہورہے اور أٹھ ماہ بعد کی تاریخیں دے کر تاخیری حربے استعمال کیۓ جارہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ أپریشن ہورہے ہیں اور مریضوں کو کہیں دوسری جگہ نہیں بھیجا جارہا۔ان باتوں میں صداقت نہیں۔ فیصل ستار کا مؤقف اپنی جگہ لیکن فیصل ستار کی تقرری نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ فیصل ستار کی تعیناتی مین قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کی گئیں ہیں ادارے میں لاکھوں روپے کی تنخواہیں وصول کرنے والوں کے خلاف ادارے کے 30/30 سال پرانے ملازمین میں تشویش پائی جاتی ہے ان ملازمین کا کہنا ہے کہ ہماری ترقی کا عمل رک چکا ہے ۔ہمارے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے جبکہ اس کے بر عکس لاکھوں روپے پسندیدہ تقرریاں کرکے ادا کیۓ جارہے ہیں۔ قومی ادارہ براۓ امراض قلب میں أنے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا ہے’ادارے کے سربراہ سمیت دیگر انتظامی امور سنبھالنے والے أگاہ ہیں کہ احتساب عدالت کی پیشیاں اچھی کارکردگی نہ ہونے’مریضوں کو اچھی سہولتیں نہ دینے’أپریشن بروقت نہ ہونے’مالی بے ضابطگیوں’بےجا اور غیر ضروری غیر ملکی دوروں’سرکاری اسپتال کے خرچ پر شاہانہ
اخراجات اور اپنوں کو نوازنے کے طفیل ہیں۔ دریں اثناء
قومی ادارہ براۓ امراض قلب کے ترجمان ناصر سے بھی جب أپریشن نہ ہونے کے بارے رابطہ کیا گیا تو ان کا مؤقف اور اصرار بھی یہی تھا کہ أپریشن جاری ہیں اور کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہیں أئی فیصل ستاراور ترجمان این أئی سی وی ڈی ناصر کا مؤقف بھی شائع کررہے ہیں۔تاہم أنے والے دنوں میں قومی ادارہ براۓ امراض قلب کو کس کس طرح نوچا گیا؟؟؟کس طرح اپنے من پسند افراد پر نوازشیں کی گئیں؟؟؟کس طرح بندر بانٹ کا یہ سلسلہ أج بھی جاری ہے؟؟؟وہ فنانس کمیٹی کہاں گئ؟؟؟تمام چشم کشا حقائق اور أئندہ "سی ایف او” اور سی ای او کی تعیناتی میں بے ضابطگیوں تلخ حقائق رپورٹ میں شائع کیۓ جائیں گے۔