,نیاز فاروقی کی دہلی سے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئیے خصوصی رپورٹ
سنہ 2007 میں امرتسر میں انڈیا اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر بات کرتے ہوئے انڈیا کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ’میں ایک ایسے دن کا خواب دیکھتا ہوں جس میں ہم اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ناشتہ امرتسر میں کر سکیں، دوپہر کا کھانا لاہور میں کھا سکیں اور رات کا کھانا کابل میں کھا سکیں۔ میرے آباؤ اجداد کے وقت میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے پوتے پوتیاں بھی ایسا ہی کر سکیں۔‘
سابق وزیراعظم کا یہ خواب ابھی تک حقیقت میں تو نہیں بدل سکا لیکن دادا دادی سے لے کر پوتے پوتیوں تک کے ہر عمر کے انڈینز نے ایک ایسا طریقہ ضرور تلاش کر لیا ہے کہ جس کی ذریعے وہ کہیں گئے بغیر امرتسر، لاہور اور کابل کا ذائقہ لینے میں کامیاب ہیں۔اس ماہ کے وسط میں جب فٹبال کا جنون پورے عالم میں عروج پر تھا، ایک دوست نے مجھے دہلی کے پڑوسی شہر نوئیڈا میں اپنے گھر پر رات کے کھانے پر ورلڈ کپ فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کیا۔جس وقت میسی اور ایمباپے فٹ بال کی پچ پر اپنا جادو بکھیر رہے تھے، میرے میزبان دوست باورچی خانے میں اپنا جادو چلا رہے تھے۔ اُنھوں نے جو قورمہ اور بریانی تیار کی اس کا ذائقہ فٹبال کے اس تاریخی میچ کو ایک لمحے کے لیے بھلا دینے کے لائق تھا۔
وہاں موجود دوسرے دوستوں نے بھی میزبان کے کھانا بنانے کی مہارت کی تعریف کی لیکن میزبان نے جواب دیا کہ اس ذائقے کا اصل راز ان کے کھانا بنانے کی مہارت کے علاوہ ایک خاص غیر ملکی مسالا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس غیر ملکی مسالے کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ان کی مسالے کی تعریف سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ اس کی مارکیٹنگ کر رہے ہوں لیکن اس مسالا برانڈ کے ہیڈ کوارٹر والے شہر کراچی سے ہزاروں میل دور انڈیا میں نہ ہی اس کا کوئی پیداواری یونٹ ہے اور نہ ہی کوئی تقسیم کا باقاعدہ ذریعہ بلکہ انڈیا میں یہ مسالا خلیجی ممالک سے ہو کر آتا ہے۔ انڈیا پوری دنیا میں اپنے مسالوں کے لیے مشہور ہے۔ انڈیا کے سب سے مقبول برانڈز میں ’ایوریسٹ‘، ’ایم ڈی ایچ‘، ’بادشاہ‘، اور ’کیچ‘ شامل ہیں اور یہ انڈیا کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں میں بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔ لیکن تجارتی شعبے کے ماہرین اور تاجروں کے مطابق انڈین مسالوں کے مقابلے میں مہنگا ہونے کے باوجود خاص طور پر پاکستان سے آنے والے پیک مسالوں کا استعمال ملک میں گوشت کھانے والے گھروں میں بڑھ رہا ہے۔
اس شام کھانے پر موجود اکثر دوستوں نے بھی بتایا کہ گوشت کے لیے وہ بھی پاکستانی مسالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہاں موجود ایک دوست نے بتایا کہ ’میں چھ سات برسوں سے شان مسالا اپنے گھر کے لیے خرید رہا ہوں حالانکہ اب تو یہ ہر جگہ دستیاب ہے لیکن چند سال پہلے تک جب بھی میں اپنے گھر پٹنہ جاتا تھا تو ماں اس کے چند پیکٹ لانے کو کہتی تھیں۔‘اُن کے مطابق پاکستانی مسالوں کی یہاں اتنی ڈیمانڈ ہے کہ اُنھوں نے مختلف پاکستانی برانڈز کو ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ایک اور دوست نے بتایا کہ برسوں سے اپنے خاندان سے دور اکیلے رہتے ہوئے کھانا بنانے میں یہ پیک مسالے ہی ذائقے اور استعمال میں آسانی کے لیے ان کا سہارا تھے۔
جب میں نے اپنے قریبی دوستوں کے دائرے سے باہر لوگوں سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے گوشت کھانے والے لوگوں نے ان پاکستانی مسالوں کے بارے میں سنا ہوا ہے یا برسوں سے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔انڈیا اور پاکستان کی باہمی تجارت پر تحقیق کرنے والی ماہر اقتصادیات نکیتا سنگلا نے پاکستانی مسالوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے پورے خاندان میں ہر کوئی پاکستان سے آنے والے پیک مسالوں کا استعمال کرتا ہے۔
یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ خاص طور پر گوشت کھانے والے ان مسالوں کو دوسرے دستیاب مسالوں کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ واقعی انڈین برانڈز پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔‘اُنھوں نے مزید کہا، ’میں گوشت نہیں کھاتی لیکن میں نے جن لوگوں کی رائے سنی ہے ان کے مطابق ہمارے انڈین مسالوں میں ان کی کوئی برابری نہیں۔‘کیلیفورنیا کی ایک دکان میں انڈین اور پاکستانی مسالے فروخت کے لیے رکھے ہیں’پاکستانی مسالے انڈین مسالوں سے بہتر ہیں‘مؤرخ رعنا صفوی جو کہ پکوانوں پر ایک مقبول بلاگ چلاتی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ دو دہائیوں سے پاکستانی مسالوں کا استعمال کر رہی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ جب وہ 2002 میں خلیج میں رہنے گئی تھیں تب ان کا استعمال شروع کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’انڈین مسالوں کے مقابلے میں شان مسالے کا پکوان بہت خوشبودار ہوتا ہے۔ یہ مسالا گوشت کے حساب سے بنایا گیا ہے۔ دوسرے مسالوں میں کبھی گرم مسالا زیادہ ہوتا ہے تو کبھی کچھ اور لیکن اس میں توازن بہت اچھا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے خلیج، یورپ اور امریکہ میں بھی انڈین دکانوں پر گوشت والے پکوان کے لیے اکثر پاکستانی مسالے دیکھے ہیں۔سنہ 2020-2019 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی نصف سے زیادہ ریاستوں میں 90 فیصد سے زیادہ آبادی روزانہ، ہفتہ وار یا کبھی کبھار مچھلی، چکن یا گوشت کھاتی ہے۔انڈیا کی تقریباً 1.4 ارب کی آبادی میں گوشت کھانے والوں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باعث گوشت میں استعمال ہونے والے مسالوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہونا لازمی ہے۔واضح کر دیں کہ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ مسالہ پیدا، استعمال اور برآمد کرتا ہے۔حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2022-2021 کے دوران ملک سے مسالا اور مسالا کی مصنوعات کی برآمدات 15 لاکھ 31 ہزار 154 ٹن تھیں۔ اس کی مالیت 30 ارب 576 کروڑ روپے تھی اور یہ مسالے کی برآمد سے حاصل ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے۔صفوی کہتی ہیں، ’ہمارے ریڈی میڈ مسالے زیادہ تر سبزی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ہم ایم ڈی ایچ وغیرہ جیسے مقامی مسالوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن گوشت کے لیے انڈیا میں شان مسالے کا کوئی متبادل نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’اس کا ذائقہ اس مسالے کے بہت قریب ہے جو ہمارے بچپن میں ملا کرتا تھا جب ہمارے گھروں میں مسالے کوٹے جاتے تھے۔ یہ اس سے کافی ملتا جلتا ہے‘۔انڈیا میں مسالے کے ہول سیلرز، ریٹیلرز اور اور ڈسٹریبیوٹرز اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستانی مسالے گوشت کھانے والے گھروں میں بہت مقبول ہیں۔دہلی میں مقیم تھوک میں مسالا بنانے اور بیچنے والی ایک کمپنی نے بتایا کہ ’اگر ہم اپنا مسالا 35 روپے فی پیکٹ بیچتے ہیں، تو شان 70 سے 75 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔‘اُنھوں نے کہا کہ اس کی مقبولیت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ انڈین مسالوں کے موازنے میں مہنگا ہے لیکن پھر بھی اس کے صارفین اسے ترجیح دیتے ہیں
نکیتا سنگلا کی ایک تحقیق کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے درمیان 2018 میں متحدہ عرب امارات کے راستے 2.34 ارب امریکی ڈالرز کی غیر رسمی تجارت ہوئی تھی، جس میں 2019 میں تقریباً سات فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔اگرچہ 2019 میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان روایتی دو طرفہ تجارت تقریباً بند ہے لیکن دبئی اور دیگر خلیجی ممالک کے ذریعے تجارت کا غیر رسمی راستہ اب بھی جاری ہے۔ماہر اقتصادیات نشا تنیجا جنھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان باہمی تجارت پر وسیع پیمانے پر لکھا ہے، بتاتی ہیں کہ ’دبئی میں انڈینز اور پاکستانیوں کی بہت بڑی آبادی ہے، اس لیے یہ مسالے ویسے بھی وہاں مقامی استعمال کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا چینل ہے جو کبھی بند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ کھلا رہا ہے۔‘تنیجا کہتی ہیں کہ یہ غیر رسمی چینل اتنا بہترین کام کر رہا ہے کہ اس میں فی الحال کوئی منفی تبدیلی نہیں آئے گی۔سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل میں جب انڈیا پاکستان باہمی تجارت بہتر ہوئی تھی تب بھی دبئی کے ذریعے غیر رسمی تجارت جاری تھی۔ اس وقت اُنھوں نے دبئی کا دورہ کیا تھا اور وہاں تاجروں سے دریافت کیا تھا کہ کیا اُنھیں لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں رسمی طریقے سے تجارت کھلنے کی وجہ سے ان پر منفی اثر ہوگا؟ وہ بتاتی ہیں ’اُنھوں نے کہا کہ ہم کبھی بے کار نہیں ہوں گے۔ اگر یہ چینل بند ہو گیا تو دونوں فریق ملیں گے کہاں؟‘ان کے مطابق اب تک اس غیر رسمی تجارت میں یقینی طور پر مزید اضافہ ہوا ہے۔’لوگ پوچھتے پاکستانی مسالہ آیا کیا؟‘سنگلا نے 2020 میں دبئی میں انڈیا اور پاکستان کے باہمی تجارتی تعلقات پر اپنے تحقیق کے دوران دیکھا کہ دبئی کے مقامی لوگ خود دونوں ممالک میں اپنے رابطے کا استعمال کر کے ان مسالوں کی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔سنگلا کہتی ہیں کہ اُنھوں نے وہاں ایسی دکانیں دیکھیں جو ایک پاکستانی برانڈ کے مسالوں کا سودا کر رہی تھیں اور انھیں انڈیا پہنچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔لیکن اس سے پہلے سنہ 2019 میں جب انڈیا اور پاکستان میں رسمی دو طرفہ تجارت میں خلل آیا تو انڈیا میں ان مسالوں کی کمی ہو گئی۔ مسالے کے مقامی ریٹیلرز اور ہول سیلرز کا کہنا ہے کہ مقامی بڑی اور چھوٹی برانڈز نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ایک دکاندار نے کہا، ’لوگ بار بار یہی پوچھتے ہوئے آتے تھے کہ پاکستانی مسالا آیا کیا۔‘ جب اس مسالے کی انڈیا میں کمی ہوئی تو صفوی نے بھی چند مقامی برانڈ آزمائے لیکن ان کے مطابق ان میں پاکستانی مسالوں جیسی خوشبو نہیں تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ان میں سوائے گرم مسالے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا ذائقہ اتنا اچھا نہیں۔‘دونوں ممالک کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ پاکستانی مسالے کے پیکٹ اب یہ نہیں ظاہر کرتے کہ یہ اصل میں پاکستانی کمپنیاں ہیں۔ مثلاً مشہور پاکستانی برانڈ شان کے پیک پر اب لکھا ہوتا ہے کہ ’شان ایک یو اے ای کا رجسٹرڈ برانڈ ہے۔ شان امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور یو اے ای میں تیار کیا جاتا ہے۔‘
گوگل سرچ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی مسالا انڈیا میں تمام بڑی ای کامرس ویب سائٹس پر دستیاب ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نوجوان طبقے میں بھی مقبول ہے۔ انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی رسائی کی وجہ سے نوجوان دنیا بھر کے مختلف پکوان کے ذائقے سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور ای کامرس جیسی سہولیات کی وجہ سے اُنھیں ذائقے کی ان سرحدوں کو توڑنے میں واضح طور پر کافی آسانی ہوئی ہے۔