اسلام آباد (کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت کو پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے افسران کے تبادلوں سے روک دیا۔جمعرات کو پولیس افسران کے سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے گی یا عدالت حکم دے؟ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کریں، ملک میں جرائم اورعدم تحفظ کی وجہ سےعوام متاثر ہورہے ہیں، پولیس افسران کے تبادلے ایم پی اے کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں، قانون کے مطابق 3 سال سے پہلےسی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے، کیا پنجاب میں تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟ قانون میں افسران کے قبل از وقت تبادلے پر پابندی نہیں لیکن قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ تاثر ہے پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کو پولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے، تحقیقاتی افسران کا الگ مقام ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں لیکن پولیس میں تفتیش کی مہارت نام کی کوئی چیزہی نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ ناقص شواہد پیش کیے جانے سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے، ملزمان کو پولیس فائدہ دے گی تو مظلوم کہاں جائے گا؟ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت سے ہی ہورہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی عمران خان پر حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا تھا، سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کا حکم دینا پڑا کیونکہ کئی دن گزر چکے تھے، پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔