کراچی (اسٹاف رپورٹر) ہیریٹیج فاونڈیشن کے موسمیاتی رضاکاروں کے پروگرام کا پہلا گروہ اپنے منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرکے اپنے گھروں کو روانہ ہوگیا ۔ اس گروہ میں ویانا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے دس طلباءاور دو فیکلٹی ممبران شامل تھے‘ جس کی قیادت پروفیسر اینڈریا ریگر جانول کر رہی تھیں جبکہ یو او ایل (یونیورسٹی آف لاہور) کے نو طلباءاور تین فیکلیٹی ممبران نے پروفیسر ذیشان کی قیادت میں بارہ دن میرپور خاص سندھ کے گاوں پنوں کے سیلاب سے متاثرین سے مل کر زندگی کا پہلا تجربہ حاصل کیا اور انہیں بحالی کی سہولیات بھی فراہم کیں۔ اس پروگرام کا آغاز ہیرٹیج فاونڈیشن پاکستان کی بانی اور سی ای او یاسمین لاری نے اکتوبر میں برطانیہ اور یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں کی ایک اسمبلی میں کیا جس کا اہتمام انٹابو اور کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ آرکیٹیکچر کے اشتراک سے کیا گیا ۔اپنے اعزاز میں دی گئی الوداعی تقریب میں ویانا کے طلباءاور اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اینڈریا ریگرجنول نے کہا”گزشتہ دو ہفتوں کے تجربے نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہم نے لاہور میں تین دن گزارے جس کی وجہ سے سب کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا ۔یہاں ہم کیمپس میں رہے اور لاہور کے طلباءکے ساتھ ایک ورکشاپ بھی کی‘ بعد ازاںہم نے گاوں میں کچھ وقت گزارا ‘ہم نے یہاں ”لاجز“ میں رہنے کا تجربہ بھی کیا جو کہ بنیادی طور پر لاری‘آکٹاگرین گھر‘ وہ پناہ گاہیں ہیں جنہیں پروفیسر یاسمین لاری نے زیرو کاربن بانس اور مٹی سے ڈیزائن کیا ہے‘ ان پناہ گاہوں کو اب سندھ کے کئی دیہاتوں بشمول پنو ولیج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس دوران نہ صرف یہ تجربہ کیا کہ گاوں کے لوگ کیسے رہتے ہیں بلکہ انتہائی سخت موسمی حالات کو بھی برداشت کیا کیونکہ یہاں کے دن سخت گرم جب کہ راتیں شدید ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ ہم نے یہاں گاوں والوں کی مہمان نوازی ‘ گرم جوشی اور شکرگزاری بھی دیکھی اور روایتی چولہوں پر پکے ہوئے صحت بخش اور تازہ کھانوں کا لطف بھی اٹھایا ۔“یونیورسٹی آف لاہور کی نمائندگی کرتے ہوئے سیدہ کومل فاطمہ نے کہا”اگرچہ ہم پاکستانی ہیں اور پنجاب کے رہائشی ہیںاس کے باوجود گاوں میں رہنے اور مقامی کاریگروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہم سب کے لیے بھی نہایت منفرد تھا۔ ہم نے ان کی زندگی کی سادگی اور پرسکون ماحول کا لطف اُٹھایا ۔تمام رضاکاروں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیااورہر گروہ کو ہر کام کرنے کا موقع دیا گیا ‘پہلے گروہ نے پناہ گاہوں کے لیے لوازمات ڈیزائن کرنے پر توجہ مرکوز کی تاکہ انہیں رہائشیوں کے لیے زیادہ بہتر اور کارآمد طریقے سے بنایا جا سکے۔ دوسرے گروہ نے سائٹ کے انتخاب سے لے کر اس کی تخلیق تک اسکول کی تعمیر کے عمل کا مشاہدہ کیا اوراس کی دستاویزتیارکی۔یہاں قائم کئے گئے اسکول عام ڈھانچے سے ہٹ کر آٹھ کے بجائے بانس کے دس پینلوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔یہ دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی کہ مختصر وقت اور کم مواد کے ساتھ انتہائی نفیس ڈھانچہ بنایا گیا۔ تیسرے گروہ نے آس پاس کے دیہاتوں کی دستاویز تیار کیں‘ دیہاتیوں سے انٹرویو کیا تاکہ ان سے ان کی داستان حاصل کی جاسکے۔اس سارے عمل کے نتیجے میں ہمارے پاس اس وقت کم از کم چار گاوں کے ترقیاتی عمل اور سائیٹ کی مکمل کی تفصیلات ہیں ۔“
واضح رہے کہ ہیرٹیج فاونڈیشن اور انٹابو دنیا بھر سے شرکت کرنے والے مختلف یونیورسٹیوں کے طلباءکے ساتھ اس پروگرام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ تحقیق کی حوصلہ افزائی‘آگاہی پیدا کی جا سکے اور پاکستان کے نظر انداز دیہاتوں کی ترقی میں سہولت فراہم کی جا سکے۔