کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی سیلاب آتے رہے ہیں لیکن اس سال آنے والا سیلاب غیر معمولی تھا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی اور جانی و مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا۔وزیر اعلی سندھ نے یہ بات پیر کو سندھ اسمبلی کے ایوان میںمون سون کی بارشوں ، سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس حوالے سے حکومت سندھ کے اقدامات پر ایک تحریک التو اپر تقریر کرتے ہوئے کہی ۔سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں ایک گھنٹہ 25 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔ ایوان بارشوں اور سیلاب سے متعلق اس تحریک التوا پر تین روز تک بحث کرے گا۔وزیر اعلی سندھ نے خطاب میں کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسے سیلاب پہلے کبھی نہیں آئے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔اس صورتحال سے صرف سندھ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ابتدا میں اس بات کی پیش گوئی کی گئی تھی کہ سندھ میں 60 ملی میٹر بارش ہوگی ،ہمیں سمجھے تھے کہ 20 فیصد زیادہ بارش ہوں گی۔اس پیش گوئی کے نتیجے میںایک ابتدائی طور پر جو حساب لگایا تھا اس کے مطابق 62 ہزار فیملی متاثر ہوسکتی ہیں۔ہم نے 90 ہزار ٹینٹ کا اسٹاک رکھنے کی بات کی۔86ہزار ٹینٹ ہمارے پاس موجود تھے جبکہ این ڈی ایم اے کے پاس 5 ہزار ٹینٹ تھے۔ہم نے 20 فیصد زیادہ بارش کی تیاری کی تھی۔جون میں سب سے پہلے بارش ہوئی ،ایک دن میں 52 ملی میٹر بارش پڑ گئی۔ مراد علی شاہ نے کہاکہ جولائی میں کراچی میں بھی سڑکیں ڈوبی ہوئی تھیں۔لیکن 2020 کی نسبت جلدی پانی نکالا تھا۔پڈعیدن میں 535 ملی میٹر بارش ہوئی۔بدین میں 335 ملی میٹر بارش ہوئی۔اس سال جولائی کے ایک مہینہ میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تیاری تھی۔لیکن رب کو کچھ اور منظور تھا۔17اگست سے جو بارش ہوئی وہ کئی روز جاری رہی ۔پڈعیدن 1228 ، لاڑکانہ 778 ملی میٹر بارش ہوئی۔حیدر آباد میں 505 ملی میٹر بارش ہوئی ،کراچی میں سرجانی میں 292 ملی میٹر بارش ہوئی۔ہماری اوسط سے 800 فیصد سے زیادہ بارش ہوئی۔یہ اعداد و شمار این ڈی ایم اے نے خود جاری کئے ہیں۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا ایوریج 60 ملی میٹر بارش کاہے۔انہوں نے کہا کہ اگر گڈو بیراج پر 6 لاکھ سے زیادہ پانی آ جائے تو پھر رب کی ذات ہی بچا سکتی ہے۔2010 سے 2011میں بھی سیلاب آئے تھے۔ 2020میں سیلاب آیا تھا مگر موجودہ سیلاب اتنا خطرناک تھا کہ اس سے روڈ، راستے، بندوں اور ریلوے سب کو شدید نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تین دن میں تین متاثرہ اضلاع میں ٹینٹ بھیجے۔ مخالفین کی جانب سے بڑی باتیں ہوئیں کہ کچھ علاقے ڈوبے نہیں بلکہ جان بوجھ کر ڈوبوئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری سندھ کی زمین سب سے زیادہ ذرخیر ہے۔وزیر اعلی نے کہا کہ ہمارے ہاں سیلاب کے زمانے میںبڑے بڑے ارسطو پیدا ہوئے، جن کی جانب سے کہاگیا کہ پنجاب میںاتنی بارش ہوئی وہاں پانی نکل گیا لیکن یہاں نہیں نکلا۔سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے 38لاکھ ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوئیں۔8سو افراد جاں بحق ہوئے۔20 لاکھ 44 ہزار گھر متاثر ہوئے۔80 فیصد کچے گھر تھے۔4لاکھ 36 ہزار مویشی ہلاک ہوئے ،111بلین کا روڈ سیکٹر کا نقصان ہوا۔صحت ، اسکول کی عمارتیں بھی تباہ ہوئی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ تباہی تو ہوگی اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ بحالی کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ وزیر اعلی نے کہا کہ بحالی کے کاموں کے سلسلے میں بلاول بھٹو اور وزیر اعظم نے بہت کوششیں کی ہے۔ان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل آئے ۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ حکومت سندھ متاچڑہ علاقوں سے پانی نکالنے کی اب تک کوشش کررہی ہے کیونکہ 2 لاکھ 40 ہزار ایکٹر پر ابھی بھی موجود پانی ہے ۔رائٹ بینک پر پانی موجود ہے جبکہ لفٹ بینک پر 44 ہزار ایکٹر پر ابھی بھی پانی ہے۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ خیر پور، قمبر شہداد کوٹ مختلف اضلاع میں ابھی بھی پانی ہے۔محکمہ آب پاشی نے کافی محنت کی۔خیر پور میں کافی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ چار سیلابوں میں خیر پور میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن اس بار صورتحال پریشان کن تھی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ منچھر کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ پانی نہیں نکالا گیا۔میں نے کہا 106 فٹ پانی تھا ۔وہ علاقے جو کبھی نہیں ڈوبے تھے اس بار ڈوب گئے۔ حکومت سندھ نے جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکا وہ کیا۔سندھ کے ہر ضلع میں دو دو بار گیا ہوں۔وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی دورے ختم کئے ۔ ہم نے 8لاکھ 36 ہزار ٹینٹ دئیے۔جن میں6لاکھ سندھ حکومت کے تھے ، باقی ٹینٹ این ڈی ایم اے اور بھڑیہ اور فضائیہ کے بھی تھے