کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے معروف ادیبہ اور شاعر زہرا نگاہ اور افتخار عارف کی صدارت میں ”مشتاق احمد یوسفی۔ یادیں باتیں“ کے عنوان سے سیشن منعقد ہوا جس کی نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دےئے۔ اس موقع پر پاکستان کے معروف ادیب شاعر، فنکار سمیت شعبہ طب میں عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ادیب رضوی بھی موجود تھے۔ زہرا نگاہ اور افتخار عارف نے مشتاق احمد یوسفی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے نہ صرف عہد یوسفی دیکھا بلکہ ان کی محفلوں میں بیٹھ کر ان کے ساتھ یادگار وقت گزارا، ان کی یادیں اور ملاقاتیں ہماری زندگی کا سرمایہ ہے کیونکہ ان سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ افتخار عارف نے کہا کہ اردو زبان میں مزاح نگاری کا جو معیار مشتاق احمد یوسفی نے قائم کیا اس تک پہنچنا دوسروں کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ مشتاق احمد یوسفی نے معرکةالآراءکتابیں تصنیف کیںمگر عملی زندگی میں وہ نہایت سنجیدہ اور بردبار شخصیت کے مالک تھے، وہ انگریزی ادب سے دلچسپی رکھنے کے ساتھ کلاسیکل میوزک کے شیدائی اور تھیٹر کے بھی دلدادہ تھے۔ افتخار عارف نے ان کی طرز تحریر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کا اسلوب اور شگفتگی قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کیونکہ وہ جملوں کے اختتام پر ایسے کمال کے الفاظ تحریر کرتے تھے جس کو پڑھنے کے بعد قاری حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتااور چند لمحوں بعد اس سے لطف اندوز ہوتا۔ افتخار عارف نے مزید کہا کہ مشتاق احمد یوسفی نے پاکیزہ زندگی گزاری وہ صوم و صلوٰة کے پابند تھے تاہم انہوں نے ہمیشہ مسلک و مذہب پر گفتگو سے گریز کیا۔ زہرا نگاہ نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی الفاظ پر عبور رکھنے کے باوجود الفاظ کی کھوج میں لگے رہتے۔ انہوں نے 700 صفحات پر مشتمل دو سفر نامے لکھے مگر ان سے مطمئن نہ ہونے کے باعث ضائع کردےئے، مشتاق احمد یوسفی ایک اصول پرست انسان تھے اور تعلقات کی بنیاد پر کسی کو رعایت دینا ان کی لغت میں شامل نہ تھا۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک ایسی بھرپور زندگی گزاری جس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔