کراچی(نمائندہ خصوصی) پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز کتابوں کی رونمائی کے سیشن میں چار کتابوں کی رونمائی کی گئی جن میں مسلم شمیم کی کتاب "مسلم نشاطِ ثانیہ کے عناصر خمسہ "، احمد سلمان کی غزلوں کا مجموعہ "جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے” شبیر نازش کی کتاب” ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے” اور غضنفر ہاشمی کی کتاب A nation impisoned in mythsشامل تھیں، نظامت کے فرائض عباس ممتاز نے ادا کیے ، اس سیشن کے دوران مسلم شمیم نے اپنی کتاب مسلم نشاطِ ثانیہ کے عناصر خمسہ پر گفتگو کرتے ہوئے تقسیم ہند سے قبل کے پس منظر اور مسلمانوں کے حالات کو اس کا محرک بتایا اور کہا کہ ہندوستان میں مسلم آبادی علمی و فکری شعور سے دور تھی ایسے میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں مدرسہ قائم کیا اور بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں کی ترقی کی بنیادیں رکھیں اس کے باوجود سرسید کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف نقاد جعفر احمد نے کہا کہ مسلم شمیم نے پانچ نابغہ روزگار شخصیات کے افکار کو مسلم نشاطِ ثانیہ کے طور پر پیش کیا ہے جن میں، غالب، مولانا حالی، سر سید ، علامہ اقبال ، قائد اعظم محمد علی جناح شامل ہیں گو کہ اس فہرست میں تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں آنے والی دیگر شخصیات بھی شامل کی جا سکتی تھیں تاہم انہوں نے بہترین انداز میں اپنی بات کہی ہے ،احمد سلمان نے اپنی غزلوں کے مجموعہ "جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے” سے منتخب غزلیں سنائیں جبکہ معروف شاعر و نقاد خواجہ رضی حیدر نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ احمد سلمان کا پہلا مجموعہ ہے جس میں وہ ایک مستند اور توانا غزل گو شاعر بن کر ابھرے ہیں ، ان کی شاعری میں سماجی اور معاشی مسائل کا احاطہ دلکش انداز میں کیا گیا ہے، وہ اپنا پیغام سننے والوں تک پہنچانے کا فن جانتے ہیں ، ان کے ہاں مضامین کا تنوع معاصر شاعروں سے مختلف ہے، احمد سلمان اپنے خیال کو اجالنے کی زبردست استعداد رکھتے ہیں اور اس سے سامعین کو چونکا دیتے ہیں، وہ استحصال سے پاک اور غیر جانبدار معاشرے کے قیام پر زور دیتے ہیں اور ان کی شاعری اسی مقصد کے گرد گھومتی معلوم ہوتی ہے، مقبول شاعر شبیر نازش نے اپنی کتاب "ہم تری آنکھ سے ہجرت نہیں کرنے والے” شائع کرنے پر آرٹس کونسل کراچی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے مجموعہ کلام سے منتخب حصے سنائے ، فہیم شناس کاظمی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شبیر نازش سحر انگیز لہجے کے شاعر ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں وہ خیال پیش کئے جنہیں ہر کسی کے دل کی آواز کہا جا سکتا ہے ، امریکہ سے آئے ہوئے غضنفر ہاشمی نے اپنی کتابA nation impisoned in myths پر کہا کہ اس کتاب میں امریکیوں کے اس خیال کو پیشِ کیا ہے کہ وہ دنیا سے مختلف اور الگ قوم ہیں اور پوری دنیا اس انفرادیت کے باعث ان کی طرف دیکھتی ہے ، انہوں نے کہا کہ امریکی پبلشر نے اس کتاب کے اچھوتے پن کی وجہ سے ہی اسے شائع کرنا پسند کیا کیونکہ انہوں نے امریکی قوم کے س دعوے پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے، سارہ ڈینئیل نے کتاب کے بارے میں کہا کہ اس میں یہ حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ امریکہ ہی واحد impisoned in mythsنہیں بلکہ جرمنی ، جاپان اور دیگر ممالک بھی اسی طرح کی خصوصیات رکھتے ہیں، سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس کتاب کی پذیرائی کی ہے جس سے اس کے متن کے معیار کا ثبوت ملتا ہے۔