کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میںپندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز "سخن افتخار۔ کلیات افتخار عارف” کے سیشن میں مقبول و معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ میں کوئی درویش وغیرہ نہیں بس ایک ambitious سا آدمی ہوں ، میں نے اپنے لیے زندگی کا ایک دائرہ بنایا جس کا تعلق کسی مسلک یا گروپ سے نہیں، انہوں نے حاضرین کی فرمائش پر اپنی مقبول غزلوں اور نظموں سے انتخاب بھی پیش کیا اور اپنی کلیات کے لیے تقریب کے انعقاد پر آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا شکریہ ادا کیا، اس موقع پر ڈاکٹر نعمان الحق ، ناصر عباس نیر اور ظفر مسعود نے افتخار عارف کی شاعری پر اظہار خیال کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے انجام دیئے، ظفر مسعود نے کہا کہ بینک آف پنجاب کو "کلیات افتخار عارف”اسپانسر کرنے کا شرف حاصل ہوا جو ہمارے لیے فخر کی بات ہے، گوپی چند نارنگ نے انہیں نئی تنہائیوں کا درد مند شاعر کہا اس سے بہتر ان کی تعریف نہیں ہو سکتی ، افتخار عارف نے اپنی شاعری میں بے مثال پیغام دیئے ہیں، انہوں نے کہا کہ فضائی حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانے کے بعد جس کیفیت سے گذرے اس میں افتخار عارف کی شاعری نے بہت حوصلہ اور سہارا دیا، ناصر عباس نیر نے کہا کہ ہر دور پر کسی بڑے شاعر کا سایہ ہوتا ہے ہمیں فخر ہے کہ ہمیں افتخار عارف کا دور ملا ، افتخار عارف کی کلیات میں خواب کو زندگی کے مرکزی استعارے کے طور پر پیش کیا گیا پھر اس کے ساتھ دعا کا استعارہ بھی ہے، انہوں نے کلیات افتخار عارف سے منتخب حصے سنائے اور کہا کہ ان سے باطل قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی قوت ملتی ہے ، افتخار عارف کی شاعری میں تخلیقی رو نمایاں نظر آتی ہے ، ان کی شاعری سے غزل اور نظم کے فرق کا پتہ چلتا ہے ، افتخار کی نظم میں مختلف قسم کی نغمگی ہے ،افتخار عارف وہ بڑے شاعر ہیں جو دو ادوار کے درمیان ہیں اور انہیں ملانے کا غیر معمولی کام کر رہے ہیں، ڈاکٹر نعمان الحق نے کہا کہ کلیات افتخار عارف کی اشاعت تاریخی واقعہ ہے، ان کی زندگی کے شخصی پہلو میں ہجرتیں شامل ہیں،جبکہ شاعرانہ پہلو انتہائی منفرد اور دلکش ہے، وہ نہایت فنکاری سے اپنی بات اوروں تک پہنچانے میں کمال رکھتے ہیں، اکثر لگتا ہے وہ ہمیں اپنا ہمراز بنا کر بات کر رہے ہیں جس سے قاری کو ان سے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے، ان کی نظمیں تخیل اور تدبر کو امکانی پہلو عطا کرتی ہیں۔