کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مختلف قراردادوں کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور معاشرے دونوں کی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کو اہمیت دی جائے۔گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی کشمیر میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی ہم مذمت کرتے ہیں اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی پرزور حمایت کرتے ہیں ، علمی و ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کام کے لیے جمہوری فضا کی موجودگی ناگزیر ہے۔ہم پاکستان کی جملہ زبانوں کو یکساں اہمیت کا حامل تصور کرتے ہیں اور ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چار روز پر پھیلے ہوئے اجلاسوں کے آخر میں منظور ہونے والی قراردادوں کے مخاطب مرکزی اور صوبائی حکومتیں، ہمارا وسیع تر معاشرہ اور اس میں شامل جملہ اہل قلم اور اہلِ فکر ہیں۔ قراردادوں میں کہا گیا ۱۔اس کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت ہوا ہے جبکہ گذشتہ برسوں میں پاکستان اور دنیا بھر میں کورونا کی وبا کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں کے اثرات ا بھی تک برقرار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں نے کروڑوں پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔ سینکڑوں افراد اس سیلاب میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سڑکیں، ریل کی پٹڑیاں، دکانیں، ہوٹل اور مکان بڑے پیمانے پر تباہ ہوئے ہیں۔ یہ سب آفات ہمارے لیے سوہانِ روح ہونے کے ساتھ ساتھ بہت غور و فکر کے بھی متقاضی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ قدرتی آفات صرف موسمی تبدیلیوں کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان کو بہت بڑھاوا دیاہے۔ بعض ملکوں ، خاص طور سے صنعتی طورپرترقی یافتہ ملکوں کی ان مخصوص اقتصادی پالیسیوں نے جن کو بناتے وقت ان کے ماحولیات پر مرتب ہونے والے اثرات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا یا ان سے عمداً اغماض برتا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک خود اس ماحولیاتی آلودگی کے اتنے ذمہ دار نہیں ہیں جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں مگر ہم جیسے ملک ان پالیسیوں سے متاثر سب سے زیادہ ہورہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت اور معاشرے دونوں کی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کو وہ اہمیت دی جائے کہ جس کی وہ متقاضی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ تخلیقی سرگرمیوں کی شرطِ اول بنی نوح انسان کی بقا ہے اور انسان کی بقا تب ہی ممکن ہے جبکہ ماحولیات کو انسان دوست بنایا جائے اور قدرتی آفات کے آگے بند باندھنے کو اولین اہمیت دی جائے۔ ۲۔ گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی ہم کشمیر میں حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں اور عوام کے حق خودارادیت کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔ اہل فکر ودانش کا یہ اجتماع رنگ و نسل، ملک و قوم اور مذہب سے قطع نظر سب انسانوں کے بنیادی حقوق پر مکمل یقین کا اظہار کرتا ہے اور جہاں کہیں بھی ان حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس کی مذمت کرتا ہے۔۳۔ اس اجتماع کا خیال ہے کہ علمی و ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کام کے لیے جمہوری فضا کی موجودگی ناگزیر ہے۔ جمہوری ماحول ہی میں افکار کی ترسیل ہوتی ہے، خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے، مکالمہ ممکن ہوتا ہے اور سوچ اور فکر کا عمل آگے بڑھتا ہے۔ ہم ہر قسم کی رکاوٹوں اور بندشوں کی مذمت کرتے ہیں وہ خواہ سرکاری نوعیت کی ہوں یا معاشرے کے بعض انتہا پسند حلقوں اور گروہوں کی طرف سے عائد کر دی گئی ہوں۔ ہمارے خیال میں آزادی فکر وعمل انسان کا بنیادی حق اور تخلیق کے سفر میں انسان کے بنیادی رختِ سفر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۴۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی ۳۰ سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ملک کا مستقبل اس نئی نسل سے وابستہ ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اس نئی نسل کو تعمیری فکر سے ہمکنار کرنا اور ا ن کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا حکومتوں،تعلیمی اداروں اور معاشرے میں بڑی تعداد میں موجود علم و ادب سے وابستہ افراد کا کام ہے۔ ہمارے خیال میں اس ضرورت کو سنجیدہ غور و فکر کا موضوع بننا چاہئے اورپھر اس کی بنیاد پر ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری نئی نسل کو پاکستان کے عظیم ثقافتی ورثے کا وارث تسلیم کیا جائے اور اس نئی نسل کو اس امانت کو سنبھالنے، اس کو اجالنے اور اس میں نوعی اضافے کے لیے تیار کیا جائے۔ ۵۔ ہم پاکستان کی جملہ زبانوں کو یکساں اہمیت کا حامل تصور کرتے ہیں اور ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی زبانوں کی ترقی کو اور ہر زبان کے ادب کو دوسری زبانوں میں منتقل کرنے…