کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے تیسرے روز کا پہلا سیشن “ اکیسویں صدی میں بچوں کا ادب “ معروف صحافی اور ادیب محمود شام کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ بچوں کے ادب کے بارے میں اس سیشن سے نعیم الدین کنول ، سلیم مغل ، عبدالرحمان مومن، سیما صدیقی اور ثنا غوری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور مقالے پڑھے۔ سیشن کی نظامت کے فرائض علی حسن ساجد نے سر انجام دیئے، سیشن سے خطاب کرتے ہوئے نعیم الدین کنول نے بچوں کی شاعری پر بات کی اور بچوں پر لکھی ہوئی اپنی نظمیں پڑھ کر سنائیں۔ سیما صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بڑے بڑے ادیبوں نے بچوں کے لیے افسانے لکھے ہیں۔ بچوں کے لیے جو بھی لکھا جائے وہ بچوں کی ذہنی سطح پر آکر لکھا جائے تاکہ اس کہانی میں بچوں کی دلچسپی برقرار رہے۔ بچوں کے لیے مشکل الفاظ کے بجائے آسان الفاظ لکھے جائیں۔ ثناءغوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں بچوں کو ٹیکنالوجی اور یوٹیوب کے ذریعے متوجہ کیا جائے، اب بچہ پرانے ”چندا ماموں“ اور ”بھوتوں کی کہانیاں“ نہیں سننا چاہتا۔ آج کا بچہ سائنس کی بات کرتا ہے اس کو سائنسی کہانیاں چاہئیں۔ اب کارٹون میں روبوٹ دکھایا جاتا ہے۔ ہمیں آج اپنے موضوعات بدلنے ہوں گے۔ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سلیم مغل نے کہا کہ بچوں کو کہانی سنانا اور کہانی پڑھانا بہت ضروری ہے کیونکہ کہانی بہت اہم ہے اگر کہانی اہم نہیں ہوتی تو دنیا بھر کے مونٹیسوری اسکولوں کا مضمون نہ ہوتا۔ عبدالرحمان مومن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی بچوں کا ادب اتنا ہی اہم ہے جتنا بیسویں صدی میں تھا۔ فرق اتنا ہے کہ آج کا بچہ ادب کو ٹیکنالوجی کے ساتھ دیکھتا ہے۔ صدارتی خطاب کے دوران محمود شام نے کہا کہ دنیا کے تمام بڑے ادیبوں نے بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا ہے بچوں کے ادب کا مطلب ہے کہ مستقبل کے لئے ہم سوچتے ہیں۔ آج کے بچے کو بڑا ہوکر کل کا بڑا آدمی بننا ہے۔ مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ رواں سال بچوں کے ادب کے لیے حوصلہ افزا رہا دو رسائل پر پی ایچ ڈی کی گئی ہے۔ پہلی بار اسلام آباد میں سرکاری سطح پر بچوں کے ادب پر تین روزہ کانفرنس ہوئی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہر سال سرکاری سطح پر بچوں کے ادب پر ایوارڈز دیئے جائیں گے۔