کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تحت پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے”اردو صحافت کی دو صدیاں“ پروگرام میں سینئر صحافی محمود شام نے کہا کہ پاکستان میں اردو صحافت پر جتنا برا وقت اس وقت آیا ہوا ہے اس کی مثال گزشتہ دو سو سالوں میں نہیں ملتی ، صحافتی اداروں سے کارکنوں کو نکالا جا رہا ہے ، ٹی وی چینل کے گلیمر کے باعث اخبار مالکان کی توجہ پرنٹ میڈیا سے ہٹ چکی ہے، اردو صحافت میں وقت گزرنے کے ساتھ تیکنیکی طور پر جدت آئی ہے لیکن ہم قارئین کے جاننے کا حق ادا نہیں کر رہے، آئیڈیل صحافت کے لیے اسی طرح کا ماحول بھی دینا ہو گا ، سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پہلے صحافت اور صحافی معلوم ہوتے تھے اب صحافت اور صحافی دونوں نا معلوم ہیں، پاکستان میں آزادی کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ نے اردو اور انگریزی صحافت میں تفریق پیدا کرنی شروع کر دی تھی اور پہلے روز سے اردو اخبارات کو ایک حد میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی جس کی وجہ سے اردو اخبارات ہمیشہ دباو¿ کا شکار رہے ، جہاں چھڑی تبدیل ہو وہیں پالیسی بھی تبدیل ہو جاتی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں صحافت میں پریس ریلیز کا رواج ہے جو نہیں ہونا چاہیے ، رپورٹر کو اس کے بجائے اپنی بات کہنی چاہیے کیونکہ اس سے خبر کی اوریجنلٹی ختم ہو گئی ہے ، معروف صحافی اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے کہا کہ میڈیا کا ایک ہی ایجنڈا ہونا چاہیے اور وہ آگاہی پھیلانا ہے باقی سب بے کار باتیں ہیں ، ہمیں مشکل حالات میں اپنی بات کہنا سکھایا گیا ہے لہذا میں نے بھی کہنے کا مختلف انداز اپنایا ہے ، پاکستان میں رائے عامہ کو بنانے میں کالم نگاری اور اداریہ نگاری کا بہت بڑا کردار ہے اس کا اثر ہماری سیاست پر بھی ہوتا رہا ہے ملک میں فکر کی جو سطح ہے اسی کے مطابق اس کا اظہار ہوتا ہے اس کا نیویارک ٹائمز یا واشنگٹن پوسٹ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں نے حق کی آواز بلند کرنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں یہ اردو اخبارات کا بہت بڑا کارنامہ ہے ، تمام تر مسائل کے باوجود جب تک اردو ہے اردو صحافت رہے گی تاہم اردو صحافت کے تابناک مستقبل کے لیے تحقیقاتی صحافت کو فروغ دینا ہو گا ، بھارت سے آن لائن پر معروف صحافی سعید نقوی نے کہا کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں اردو صحافت کی کھپت نہیں رہی اور اخبارات کی سرکولیشن مسلسل کم ہو رہی ہے ، بھارت میں حالات بیحد ثقیل ہیں اور یہاں بھی ایڈیٹر کی پوزیشن دبا دی گئی ہے انفارمیشن بیس ناپید ہے اور صرف ہینڈ آو¿ٹ سے کام چل رہا ہے، توصیف احمد خان نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا آرٹس کونسل کراچی اور احمد شاہ اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں، اردو صحافت نے پاکستان بننے کے بعد ترقی کی ہے اور یہ مختلف مراحل سے گزری ہے